بیجنگ: (ویب ڈیسک) چین میں کرونا وائرس کی وبا کے بعد صرف چین میں ہی وائرس کے علاج کے لیے لگ بھگ 80 طبی آزمائشیں جاری ہیں جنہیں سائنسی زبان میں کلینکل ٹرائلز کہا جاتا ہے۔ تاہم ان میں سے بعض طبی آزمائشوں میں تعطل کا سامنا بھی ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق نئے وائرس کو COVID-19 کا نام دیا گیا ہے جس کی ایک جانب ویکسین بنانے کی کوششیں جاری ہیں تو خود دنیا بھر میں اس کے مؤثر علاج پر زور دیا جارہا ہے۔ اب تک کرونا وائرس 1700 سے زائد جانیں لے چکا ہے اور صرف چین میں ہی 50 ہزار سے زائد مریض اس سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ دنیا میں ہزاروں مریض موجود ہیں۔
چین میں طبی آزمائشوں کے دوران ہزاروں سال قدیم روایتی نسخوں، جڑی بوٹیوں سے لے کر جدید طبی ادویہ اور طریقہ کار پر غور کیا جارہا ہے۔ اب تک کرونا وائرس کا مؤثر علاج سامنے نہیں آسکا ہے لیکن بین الاقوامی ماہرین نے چینی کاوشوں پر تبصرہ کرتے ہوئے حد درجہ احتیاط کا مشورہ دیا ہے کیونکہ اس کے بعد ہی کوئی دوا سامنے آسکے گی۔
عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) سے وابستہ سائنسداں سومیا سوامی ناتھن کا کہنا ہے کہ چینی تجربات پر ان کی نظر ہے اور وہ اس کےلیے رہنما ہدایات (پروٹوکولز) وضع کررہے ہیں تاکہ اسے فوری طور پر دنیا بھر کی ان تجربہ گاہوں میں بھی بھیجا جاسکے جہاں کرونا وائرس کے علاج کا کام جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت چین 600 افراد پرتحقیق کررہا ہے لیکن اگر سائنسی تدابیر اور ضابطوں کا خیال نہیں رکھا گیا تو یہ ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔ اس میں کنٹرول گروپ، نتائج، مریضوں کی بحالی یا صحت مزید بگڑنے کی ساری تفصیلات شامل کرنا بہت ضروری ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی رہنما ہدایات بہت تفصیلی لیکن قابلِ عمل ہیں جنہیں دنیا بھر کے ماہرین استعمال کرکے کرونا وائرس کے دو یا تین مؤثر ترین علاج تجویز کریں گے اور اس کی توثیق عالمی ادارہ برائے صحت کرے گا۔ چین نے کہا ہے کہ اس نے اپنے کلینکل ٹرائلز کا ایک ڈیٹابیس بنا رکھا ہے جس کے مختلف پہلوؤں پر بھی غورکیا جارہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک تجربے میں ایچ آئی وی کی ادویہ کرونا وائرس کے خلاف مؤثر ثابت ہوئیں اور ان سے دو اینزائم بلاک ہوئے جو وائرس کی تعداد بڑھانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسری جانب 760 افراد پر جاری ایک اور طبی آزمائش اپریل تک مکمل کرلی جائے گی۔
اس کے علاوہ سٹیم سیل کے ذریعے بھی کرونا وائرس کے علاج کی کوششیں جاری ہیں۔ توقع ہے کہ اگلے چند ماہ میں کرونا وائرس کے مؤثر علاج کی کوئی نوید مل سکے گی۔