لاہور: (ویب ڈیسک) طبّی ماہرین نے ہر قسم کے زکام سے بچانے والی ’’یونیورسل فلُو ویکسین‘‘ کی کامیاب انسانی آزمائشیں (فیز 2 کلینیکل ٹرائلز) مکمل کرلی ہیں اور اب وہ اسے اگلے مرحلے پر آزمانے کےلیے تیار ہیں۔
واضح رہے کہ کوئی بھی نئی دوا سب سے پہلے جانوروں پر آزمائی جاتی ہے جس کے بعد اسے انتہائی احتیاط کے ساتھ 15 سے 30 مریضوں پر آزمایا جاتا ہے اور اس کے مفید و مضر اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان آزمائشوں کو ’’فیز 1 کلینیکل ٹرائلز‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس مرحلے میں کامیابی کے بعد یہی دوا اگلے مرحلے میں 100 کے لگ بھگ مریضوں پر آزمائی جاتی ہے جسے ’’فیز 2 کلینیکل ٹرائلز‘‘ کہتے ہیں۔
اگر یہ دوا یہاں بھی کامیاب ثابت ہوتی ہے تو پھر ’’فیز 3 کلینیکل ٹرائلز‘‘ کا مرحلہ آتا ہے جس میں یہ نہ صرف تقریباً 3000 مریضوں پر آزمائی جاتی ہے بلکہ اس کے اثرات کا موازنہ اسی قسم کی دیگر دواؤں کے اثرات سے بھی کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد ہی کہیں جا کر کوئی نئی دوا بڑے پیمانے پر تیاری اور فروخت کےلیے منظور کی جاتی ہے۔
فلُو (زکام) کی نئی دوا جسے ’’فلُو وی‘‘ (FLU-v) کا نام دیا گیا ہے، مصنوعی طور پر تیار کی گئی ہے اور اب تک کے تجربات میں اسے کئی اقسام کے زکام کی طویل مدتی روک تھام میں مفید پایا گیا ہے۔ اسے لندن کی ادویہ ساز کمپنی ’’سِیک اے کیور‘‘ نے وضع کیا ہے۔
کمپنی کی چیف سائنٹفک آفیسر اولگا پلیگویلوس کہتی ہیں کہ یہ دوا انفلوئنزا (فلُو) وائرس کو ناکارہ کرنے کےلیے اُن حصوں کو نشانہ بناتی ہے جو اس وائرس کی تمام اقسام میں یکساں ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کم تبدیل ہوتے ہیں۔
اب تک جتنی بھی فلُو ویکسینز بنائی گئی ہیں، ان میں وائرس کو ناکارہ کرنے کےلیے ایسے حصوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو کچھ عرصے میں تبدیل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ویکسین بھی بے کار ہوجاتی ہے۔
’’فلُو وی‘‘ تیار کرنے کےلیے ماہرین نے کمپیوٹر الگورتھم استعمال کرتے ہوئے انفلوئنزا وائرس کے ان حصوں کا پتا لگایا جن کی وجہ سے جسمانی دفاعی نظام (امیون سسٹم) میں مضبوط اور مؤثر ردِعمل بیدار ہو کر وائرس کا قلع قمع کرسکتا ہے۔ پھر ان میں سے بھی وائرس کے ایسے حصے شناخت کیے گئے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کم تبدیل ہوتے ہیں۔
ویکسین تیار ہوجانے کے بعد اس کی ابتدائی آزمائشیں کامیاب رہیں، جن کے بعد اس کے فیز 2 کلینیکل ٹرائلز شروع کیے گئے جن میں 175 رضاکار شریک تھے۔ ان میں سے نصف کو فلُو ویکسین کے نام پر کوئی بے ضرر محلول لگایا گیا جبکہ نصف کو اصل ’’فلُو وی‘‘ دی گئی۔
اس بارے میں ریسرچ جرنل ’’اینلز آف انٹرنل میڈیسن‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ’’فلُو وی‘‘ لگوانے والوں میں صرف انجکشن کے مقام پر ہلکا پھلکا ردِعمل سامنے آیا۔ اس کے علاوہ اور کوئی منفی ضمنی اثر (سائیڈ ایفیکٹ) نہیں دیکھا گیا۔
دیگر طبّی ماہرین نے بھی اس کامیابی کو حوصلہ افزاء قرار دیا ہے۔ ’’سِیک اے کیور‘‘ کے تحقیق کار اب اس دوا پر اگلے مرحلے (فیز 3) کی طبّی آزمائشیں شروع کرنا چاہتے ہیں جس کےلیے انہوں سرکاری فنڈنگ یا سرمایہ کار کمپنی کی تلاش شروع کردی ہے۔