برلن: (ویب ڈیسک) جرمنی اور ناروے کے سائنسدانوں کی مشترکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک مخصوص خون کا گروپ بھی وائرس سے ہونے والی بیماری کورونا وائرس کی شدت میں نمایاں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق نئے نوول کورونا وائرس کی دنیا میں پھیلنے کی رفتار سائنسدانوں کی توقعات سے بھی زیادہ ہے اور وہ اس بارے میں مسلسل جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایسے کونسے عناصر ہیں جو اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی شرح میں تیزی سے اضافہ کررہے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک مخصوص خون کا گروپ بھی اس وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی شدت میں نمایاں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
جرمنی اور ناروے کے سائنسدانوں کی تحقیق ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی بلکہ آن لائن جاری کی گئی ہے جس میں بتایا گیا کہ مخصوص بلڈ گروپ والے افراد بیماری کے حوالے سے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔
تحقیق کے نتائج ویب سائٹ medRxiv پر شائع ہوئے، جہاں اکثر سائنسدان تحقیق کے نتائج کسی جریدے میں شائع ہونے کے عمل کے دوران شائع کردیتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق اے بلڈ گروپ والے افراد میں کورونا وائرس کی سنگین ترین قسم کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوسکتا ہے۔ تحقیق میں انسانی جینوم میں ایسے 2 مقامات دریافت کیے گئے جو کورونا کے شکار افراد میں نظام تنفس ناکام کرنے کا خطرہ بڑھاتے ہیں، ان میں سے ایک مقام اس جین میں تھا جو خون کے گروپ کا تعین کرتا ہے۔
تحقیق کے مطابق اے بلڈ گروپ کے حامل افراد میں کورونا ہونے کی صورت میں آکسیجن یا وینٹی لیٹر کی ضرورت کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔ تاہم تحقیق میں شامل جرمنی کی کائل یونیورسٹی کے مالیکیولر میڈیسین کے پروفیسر آندرے فرینک کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ بلڈ گروپ کسی فرد کے زیادہ بیمار ہونے کا تعین کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اب تک یہ فرق نہیں کرسکے تھے کہ بلڈ گروپ یا بلڈ گروپ سے منسلک کچھ جینیاتی عناصر بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں، اپنے کام کے دوران ہم نے بلڈ گروپس کا تجزیہ کرنے کے بعد تخمینہ لگایا کہ او گروپ والے افراد کو 50 فیصد زیادہ تحفظ اور اے گروپ والوں کے لیے 50 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
محققین نے اٹلی اور سپین کے ہسپتالوں میں زیرعلاج کورونا کے 1610 مریضوں کے خون کے نمونے جمع کیے گئے جن کو آکسیجن یا وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی تھی، خون کے نمونوں میں سے ڈی این اے کو اکٹھا کرکے ایک تیکنیک جینوٹائپنگ کے ذریعے اسکین کیا گیا۔ بعد ازاں ان کا موازنہ ایسے 2205 افراد سے کیا گیا جو کووڈ 19 کے شکار نہیں ہوئے تھے۔
محققین نے کورونا مریضوں کے ڈی این اے کا بھی تجزیہ کیا تاکہ تعین کیا جاسکے کہ ان میں کسی قسم کا جینیاتی کوڈ مشترکہ تو نہیں۔
اس سے قبل چین اور امریکا میں ہونے والی الگ الگ تحقیقی رپورٹس میں بھی بتایا گیا تھا کہ اے بلڈ گروپ والے افراد میں اس بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ او گروپ کے مالک لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
2002 سے 2003 کے دوران پھیلنے والی سارس (وہ کورونا وائرس جسے کووڈ 19 کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے) کے دوران بھی محققین نے دریافت کیا تھا کہ اے بلڈ گروپ والے افراد میں اس بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ مگر محققین اس حوالے سے تاحال پریقین نہیں کہ یہ تعلق کیوں موجود ہے۔
پروفیسر آندرے فرینک نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ وجہ کے بارے میں صرف قیاس ہی کرسکتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مجھے خوفزدہ کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ مقام جہاں خون کے گروپ والے جین موجود ہوتے ہیں، میں ایک ڈی این اے ہوتا ہے جو ایک جین کے لیے آن آف سوئچ کا کردار ادا کرتا ہے جو ایک پروٹین بنانے کا کام کرتا ہے جو مضبوطی مدافعتی نظام کو متحرک کرتا ہے۔
کورونا وائرس کے کچھ مریضوں میں مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے جس سے بہت زیادہ ورم اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ اس ردعمل میمں جینیاتی عناصر اثرانداز ہوتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ دوسرا مقام کروموسوم 3 کا کووڈ 19 سے زیادہ مضبوط لنک ہے مگر مقام 6 جینز کا گھر ہے اور ابھی یہ کہنا ممکن نہیں ان میں سے کونسا جین کووڈ 19 پر اثرانداز ہوتا ہے۔
سائنسدان پہلے ہی بتاچکے ہیں کہ کچھ عناصر جیسے عمر اور پہلے سے بیماری کے شکار افراد میں کووڈ 19 کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر اب پہلی جینز کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔