نیو یارک: (ویب ڈیسک) امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سانس لینے یا یا بات کرنے سے بھی دیگر لوگوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق نئے کورونا وائرس کے بارے میں اب بھی بہت کچھ سائنسدان جان نہیں سکے ہیں اور ہر مہینے وبائی بیماری کے حوالے سے نئی معلومات سامنے آرہی ہے جو ماہرین کو ششدر کردیتی ہے۔
حال ہی میں سائنسدانوں کے ایک گروپ نے دعویٰ کیا تھا کہ کورونا وائرس درحقیقت ہوا سے پھیپلنے والا مرض ہے اور عالمی ادارہ صحت کو اس حوالے سے اپنی سفارشات میں تبدیلی لانی چاہیے۔
وبا کے آغاز سے ہی سائنسدان زور دیتے رہے کہ اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 مریض کی کھانسی یا چھینک کے علاوہ بولنے یا سانس لینے سے خارج ہونے والے ننھے ذرات کے ذریعے لوگوں میں منتقل ہوتی رہی ہے۔
تاہم اب تک ایسے شواہد موجود نہیں تھے جو یہ ثابت کرتے کہ بولنے یا سانس لینے کے دوران خارج ہونے والے ذرات واقعی متعدی ہوتے ہیں۔
امریکا کی نبراسکا یونیورسٹی کی تحقیق میں پہلی بار ثابت کیا گیا کہ کورونا وائرس 5 مائیکرون سے کم حجم کے ننھے ذرات لیبارٹری کے ماحول میں پھیل سکتے ہیں۔
آسان الفاظ میں کھانسی اور چھینک کی بجائے صرف بات کرنے اور سانس لینے سے بھی وائرس ایک سے دوسرے فرد تک منتقل ہوسکتا ہے۔
اسی طرح تحقیق میں 2 افراد کے درمیان 2 میٹر کے فاصلے کی دوری کو بھی غیر محفوظ قرار دیا گیا کیونکہ یہ ننھے ذرات اس سے بھی زیادہ دور تک سفر کرسکتے ہیں۔
تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے مگر اسکے انکشافات ان تفصیلات سے مطابقت رکھتے ہیں جو وائرس کے حوالے سے حال ہی میں سامنے آئی ہیں۔
medrxiv.org میں شائع تحقیق ان ماہرین کی تھی جن کی جانب سے مارچ میں ثابت کیا گیا تھا کہ وائرس ہسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں میں ہوا میں موجود ہوتا ہے۔
نبراسکا یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جوشوا سانتاپیا نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ درحقیقت اس طرح کے نمونوں کو اکٹھا کرنا بہت مشکل ہے۔
اسکی جانچ پڑتال کے لیے محققین کی جانب سے موبائل فون کے حجم کی ڈیوائس کو استعمال کیا گیا تاکہ دریافت کیا جاسکے کہ بات کرنے اور سانس لینے کے دوران جو ذرات خارج ہوتے ہیں، وہ کس حد تک دیگر افراد کو متاثر کرسکتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے کورونا وائرس کے مریضوں کے 5 کمروں سے نمونے حاصل کیے گئے اور اس کے لیے جو بلندی تھی وہ 30 سینٹی میٹر تک تھی۔
محققین نے بات کرنے کے دوران خارج ہونے والے ننھے ذرات کو ریکارڈ کیا گیا، کھانسی کے بعد کے نمونے بھی اکٹھے ہوئے جبکہ ماہرین ایک مائیکرون کے حجم جتنے ننھے ذرات بھی اکٹھے کرنے میں کامیاب رہے۔
ان نمونوں کو لیبارٹری میں رکھ کر دیکھا گیا کہ وہ کس طرح اپنی نقول بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور 18 میں سے 3 ایسا کرنے میں کامیااب بھی ہوئے۔ اس سے محققین کو عندیہ ملا کہ بات کرنے اور سانس لینے کے دوران خارج ہونے والے انتہائی ننھے ذرات بھی لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے یں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ خلیات میں اپنی نقول بناسکتے ہیں اور متعدی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ مریض جب بات کرتے ہیں تو ننھے ذرات ہوا میں کئی گھنٹوں تک معطل رہتے ہیں جن کو ایروسول کہا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ سائنسدانوں کے زور دینے پر 7 جولائی کو عالمی ادارہ صحت نے ہوا کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے اپنے موقف کو کسی حد تک تبدیل کرتے ہوئے مخصوص ماحول میں ایسا ممکن قرار دیا تھا۔