‘’انڈور جنریشن’’ کی بیماریاں اور علاج

Published On 19 October,2020 09:23 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) گزشتہ 200 برس اچھے گزرے، کسی بھی ملک کا نام لیجئے، ان 200 برسوں میں نقل مکانی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ لوگ آبائی گھر چھوڑ کر نئے شہر بسانے نکل پڑے۔ دیہات شہروں میں بدلنے لگے۔ کھیت، فیکٹریوں میں ڈھل گئے۔ ہر شعبہ ہائے علم میں نوجوانوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ سائنس اور آرٹس کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ان لوگوں کے پاس دماغ بھی تھا اور جسم بھی، یعنی دونوں ہی صحت مند تھے، اب ایسا نہیں ہے۔ نئی نسل صحت سے غافل ہو رہی ہے لیکن بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ان سب مسائل کا آسان سا حل یہ ہے کہ زندگی میں روشنی کو آنے دیجئے۔ اس کی تفصیل ہم آخر میں بتائیں گے۔

 

انڈور جنریشن

ہم تو پرانی نسل میں بدلتے جا رہے ہیں لیکن نئی نسل کو جن مسائل کا سامنا ہے، وہ کسی اور نسل کو درپیش نہ تھے۔ نہ ہمیں، نہ ہمارے آباء اجداد کو۔ اس نسل نے خود کو کمروں میں قید کر رکھا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق نوجوان ہفتے میں 46 گھنٹے کمرے میں گزارتے ہیں۔ شمالی امریکہ اور یورپ کے 14 ممالک میں 16 ہزار شہریوں پر کئے گئے سروے سے پتا چلا کہ بعض قوموں کے نوجوانوں کاایک تہائی وقت کمروں کے اندر گزرتا ہے۔

ایک اور جائزے کے مطابق 90 فیصد افراد 22 گھنٹے اور ڈیسک پر جاب کرنے والے دن بھر میں 15 گھنٹے کمروں کے اندر رہتے ہیں۔ ہر چھٹے آدمی نے اعتراف کیا کہ بسا اوقات وہ سارا دن کمرے سے باہر نہیں نکلتے۔ تنہائی یا کمرے میں بند رہنا کسی زمانے میں سنگین ترین سزا ہوا کرتی تھی۔ یہی زندگی اس نسل نے پسند کر لی۔ ماہرین طب کی نظر میں یہ انڈور جنریشن ہے یعنی کمروں کے اندر رہنے والے نوجوان۔ آج کل ملازمتیں بھی کمروں کے اندر ہی کرنا پڑ رہی ہیں جن میں دھوپ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔اس سے بھی صحت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

غاروں میں رہنے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے نوجوان کسی بھی پرانی نسل کے مقابلے میں زیادہ وقت کمروں کے اندر گزار رہے ہیں۔ وہ غاروں میں رہنے والوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ہر روز کا ایک معمول ہوتا ہے، جلدی یا دیر سے اٹھنا، ہلکی سی روشنی میں کافی یا چائے کی چسکیاں بھرنا، اگر عادت ہو تو سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے کمپیوٹر پر انگلیاں چلانا، پھر ہولے سے بڑبڑانا   یہ کمپیوٹر اتنی دیر سے کیوں آن ہوتا ہے؟‘‘ ملازمت پیشہ نوجوان کچھ وقت گھر میں کمپیوٹر کی سکرین کے سامنے گزارنے کے بعد دفتر کی راہ لیتے ہیں۔ جہاں نئی قسم کا کمرہ منتظر ہوتا ہے۔دیواروں سے ہلکی،مدھم سی روشنی پھوٹتی نظر آتی ہے، کارپوریٹ کلچر اسی کو کہتے ہیں۔آٹھ گھنٹے کمپیوٹر یا کسی دوسری مشین میں کام کرنے کے بعد نوجوان گھر کی راہ لیتاہے۔ صبح شام یونہی گزر جاتے ہیں۔

ہر گھر میں 1800لٹر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس

تبدیلی کے ماحول میں انسان نے سب اسے اہم چیزکھو دی۔ بھلا کیا؟ آپ کے ذہن میں شائد نہ آسکے، شائد ہم کبھی بھی نہ سمجھ سکیں کہ ترقی کے اس موڑ پر ہم نے کیا چیز کھودی ہے ۔ ہم سب سورج کی روشنی ، اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ پرانی قومیں زیادہ تر دھوپ میں گزارتی تھیں، صحت بخش روشنی میں۔ اب وہی وقت کمپیوٹر کی نقصاندہ توانائی کے سامنے بیت جاتا ہے۔ ہم نے صاف ستھراماحول کھو دیا ہے ۔کمروں کے اندر کی ہوا گندی ہوتی ہے۔قالین، فرش، اے سی، بیڈز، لکڑی کی اشیا ء کی صفائی اورچادروں کو جھاڑنے کے دوران گندی ہوا کمروں میں رہ جاتی ہے۔ کچن سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو کمروں میں آنے سے کون روک سکتا ہے،اس گیس کا گزر پورے گھر کے اندر سے ہوتا ہے اسی فضاء میں نوجوان سانس لے رہے ہیں۔

ہر بالغ آدمی کو دن بھر میں4ہزار گیلن ہوا درکار ہوتی ہے ،کمروں کی ہوا بیرونی ہوا کے مقابلے میں 5گنا آلودہ ہوتی ہے۔ چار افراد پر مشتمل ایک کنبہ دن بھر میں 1800لٹر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے ، اس نقصاندہ گیس کا بڑا حصہ کمروں کے اندر ہی رہ جاتا ہے۔

ذہنی صلاحیتوں میں کمی اور موڈ میں تبدیلی

ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جسے social clock society کہا جا سکتا ہے۔ نیند ہمیں دنیا سے کاٹ سکتی ہے۔ سرکیڈین ردھم کمروں کی زندگی کا پہلا شکار بنتا ہے۔ ہمارے نوجوان اس سے محروم ہو رہے ہیں۔ کمروں کے اندر کی روشنی 300 تا 500 lux کی ہوتی ہے، جو ہمارے جسم کے بائیو لوجیکل ردھم کو چلانے کے قابل نہیں۔ جسم کو کم از کم 1000 lux کی انرجی درکار ہوتی ہے۔

جائزے میں اس بات سے 53 فیصد لوگ ناواقف تھے ۔ کھڑکیوں اور دروازوں سے آنے والی روشنی 3 ہزار lux ہوتی ہے جبکہ کھلی فضاء کی روشنی10ہزار سے ایک لاکھ Luxتک ہوتی ہے۔

ایک جائزے کے دوران 39فیصد افراد نے کہا کہ سورج کی روشنی میں کمی پیشی ان کے موڈ کو بدل دیتی ہے۔یہ وہ حقیقت ہے جس سے جائزے میں 80فیصد لوگ لاعلم تھے۔دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نسل جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج ہو سکتی ہے، اس کی ذہانت میں کمی، تعلیم،جاب ،پیداواری صلاحیت یعنی کام کرنے کی طاقت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

ہارورڈ میڈیکل سکول میں پروفیسر سٹیون لاکلے کے مطابق اندھیرا یا کم روشنی کو ہم انسانی زندگی کا تاریک ترین پہلو کہہ سکتے ہیں کیونکہ سورج کی روشنی ہمارے جسم کے سرکینڈین کلاک کو ٹھیک رکھتی ہے اور نئے ماحول میں اڈجسٹ ہونے میں مدد دیتی ہے۔ انہوں نے شمسی توانائی کو کام کرنے کیلئے زبردست محرک قرار دیتے ہوئے کہا کہ دماغ کو سب سے زیادہ تحریک سورج کی روشنی سے ہی ملتی ہے۔ انسان چوکس رہتا ہے اور کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

دمہ کا اندیشہ

ڈے لائٹ انرجی اینڈ انڈور کلائمیٹ نامی این جی او کے سربراہ پیٹر فوڈبرگ نے بتایا کہ کمروں میں بند رہنے کی وجہ سے دمہ کے اندیشوں 40 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کمرے کے اندر رہنے سے نیند کا نظام بھی متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ نیند کا تعلق دن کی روشنی سے بھی ہوتا ہے۔

سانس کی بیماریاں اور ڈپریشن

ایک جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ   کمرہ بند ‘‘ لوگوں کی 15 فیصد تعداد سانس کی بیماری (Seasonal Affective Disorder) کا شکار ہے۔ ہم بھی اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں، تحقیق کی کمی کے باعث صورتحال سے لاعلم ہیں۔ کمروں میں رہنے کی وجہ سے عام ڈپریشن کے علاوہ سرمائی ڈپریشن بھی پھیل رہا ہے۔ بقول طبی ماہرین   کمرہ بند لوگوں ‘‘ نے   خیر وعافیت ‘‘ کی اصطلاح کو خود ہی اپنی زندگی سے نکال باہر پھینکا ہے۔ دنیا سے لاتعلقی پیدا ہو رہی ہے،یہ لوگ قومی مسائل اور عوامی مشکلات میں زیادہ دل چسپی نہیں لیتے۔

اس مشکل سے نجات کا راستہ

روزانہ صبح 45 منٹ واک کیجئے،ہماری آنکھوں کی پتلیاں اس توانائی کو محفوظ کرلیں گی ۔ یونیورسٹی آف راچسٹر کے ماہر نفسیات رچرڈ ریان (Richard Ryan) نے تحقیق کے ذریعے ثابت کیا کہ   اچھے ماحول میں تفریح کرنے سے لوگ دوسروں کی بہ نسبت زیادہ متحرک ہو جاتے ہیں۔

20 منٹ سبز ماحول میں سیر

ایئرکنڈیشن یا ہیٹر میں طویل عرصے تک رہنا صحت کیلئے اچھا نہیں، درجہ حرارت میں مصنوعی تبدیلی سے تھکن، سر درد، فنگس، بیکٹیریا خشک کھانسی،ج یسا کہ سانس میں کمی، نزلہ، جلد کی الرجی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس لئے زندگی میں روشنی کو آنے دیجئے اور کمرے سے کسی بھی وقت نکل کر سیر کیجئے۔ بیس پچیس منٹ کیلئے واک کیجئے۔ کام کے دوران چند بار اٹھ کر باہر روشنی میں چلے جایئے۔

بیرونی دنیا کو اندر لے آئیے

کمرے یا گھر کی کھڑکیاں کھلی رکھیے ، ہو سکے تو دروازے بھی کھول دیجئے، اس سے باہر کا ماحول اندر آجائے گا۔ چھت پر بھی چہل قدمی کیجئے ،سب ٹھیک ہوجائے گا۔

تحریر: ڈاکٹر خالد عثمان، ڈین نشتر ہسپتال
 

Advertisement