روزہ صحت کے لئے بھی ناگزیر

Published On 18 April,2021 09:13 pm

لاہور: (سپیشل فیچع) کئی سو برس قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ سے نظام انہضام کو آرام ملتا ہے لیکن جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی اس حقیقت کا علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔

نظام انہضام کئی اعضا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اہم اعضا جیسا کہ منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان، گلا، مقوی نالی، معدہ، بارہ انگشت آنت، جگر، لبلبہ اور آنتوں کے مختلف حصے وغیرہ اس نظام کا حصہ ہیں۔

یہ پیچیدہ اعضا خود بخود ایک کمپیوٹر کی مانند کام کرتے ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ کرتے ہیں، یہ سارا نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔ ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کر دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ اور غلط قسم کی خوراک کی وجہ سے ’’ گھس‘‘ جاتا ہے یعنی کمزور پڑ جاتا ہے۔ روزہ ایک طرح اس سارے نظام کو ایک ماہ کا آرام ملتا ہے۔

درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ متعدد دوسرے کام بھی کرنے ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح تھکان کا شکار ہو جاتا ہے جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کے لئے پہرے پر کھڑا ہو۔

اسی وجہ سے صفرا (Bile) کی رطوبت جس کا اخراج ہاضمہ کے لئے ہوتا ہے۔ مختلف قسم کے مسائل پیدا کرتا ہے اور دوسرے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

دوسری طرف روزہ کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک کا آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزہ کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر میں اگر معدہ میں داخل ہو جائے تو پورا نظام انہضام اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔

جگر فوراً مصروف عمل ہو جاتا ہے۔ سائنسی نکتہ نظر سے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اس کا آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ تو لازمی ہونا چاہیے۔ جدید دور کا انسان جو اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے، متعدد طبی معائنوں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔

لیکن اگر جگر کے خلیے کو قوت گویائی حاصل ہوتی تو وہ ایسے انسان سے کہتا کہ تم مجھ پر عظیم احسان صرف روزہ رکھ کر ہی کر سکتے ہو۔ جگر پر روزہ کی برکات میں سے ایک وہ ہے جو خون کے کیمیائی عمل پر اس کی اثر اندازی سے متعلق ہے۔

جگر کے انتہا ئی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا ہوتا ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے یا ہر لقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اسے ہضم ہو کر تحلیل ہو جانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتا ہے۔ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کو ’’ذخیرہ ‘‘ کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہو جاتا ہے۔

اس طر ح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن(Globulin) جو جسم کے محفوظ ر کھنے والے (Immune) سسٹم کو تقویت دیتا ہے کی پیداوار پر صرف کر سکتا ہے۔ روزے کے ذریعے گلے اور خوراک کی نالی کے بے حد حساس اعضا کو جو آرام نصیب ہوتا ہے، اس تحفے کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جا سکتی۔

روزے کے ذریعے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی متوازن ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے روزہ کے دوران تیزابیت جمع نہیں ہوتی۔ اگرچہ عام قسم کی بھوک سے یہ بڑھ جاتی ہے لیکن روزہ کی نیت اور مقصد کے تحت تیزابیت کی پیداوار رک جاتی ہے۔ اس طریقہ سے معدے کے پٹھے اور معدے کی رطوبت پیدا کرنے والے خلیے رمضان المبارک میں آرام کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔

روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحتمند رطو بت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے غلاف کے نیچے (Endotheliun) محفو ظ (Immune) رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے، جیسے انتڑیوں کا جال روزے کے دوران ان کی نئی توانائی اور تازگی حاصل ہو تی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہو جا تے ہیں جو ہضم کرنے والی نالی پر ہو سکتے ہیں۔

روزے کے دوران خون پر فائدہ مند اثرات

روزہ کے دوران خون کی مقدار میں کمی کے ذریعے دل کو آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم یہ بات ہے کی خلیوں کے درمیان (Intercellular) مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹشو یعنی پٹھوں پر دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ اسے ڈاسٹالک (Diastolic) بھی کہتے ہیں۔

روزے کے دوران ڈاسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی حالت میں ہوتا ہے۔ مزید برآں انسان ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ ( ہائپر ٹینشن) کا شکار ہے۔ رمضان المبارک میں ایک ماہ کے روزے ڈاسٹالک پریشر کو کم کر کے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔

اس حقیقت کا علم اب عام ہو گیا ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں ایک وجہ خون میں باقی ما ندہ مادے (Reminants) کا پوری طرح تحلیل نہ ہو سکتا ہے جبکہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے۔ اس طرح شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں۔

چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جن میں شریانوں کی دیواروں کی سختی (Arteriosclerosis) نمایاں ترین ہے، سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے۔

چونکہ روزے کے دوران گر دے جنہیں دوران خون ہی کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے آرام کی حا لت میں ہوتے ہیں اس لئے جسم کے ان اہم اعضا کی قوت بھی روزے کی بر کت سے بحال ہو جاتی ہے

جسمانی خلیوں پر روزے کا اثر

روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیا ن اور خلیوں کے اندرونی سیال ماد وں کے درمیان توازن کو قائم رکھنے سے متعلق ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال مقدار میں کم ہو جاتے ہیں اس لئے خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہو جاتا ہے۔

اسی طرح عاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل سیل کہتے ہیں اور جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے آرام اور سکون ملتا ہے جس سے ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ لعاب بنانے والے (Pitutary) غدود، گر دن کے غدود تموسہ (Thyroid) اور لبلبہ (Pancreas) کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تا کہ روزے کی برکات سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کر سکیں اور مزید کام کرنے کیلئے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔

اعصابی نظام پر روزے کا اثر

اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بعض لوگوں کے اندر انانیت (Egotistic) یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے برخلا ف روزے کے دوران اعصابی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔

عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کر دیتی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ خشوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔

اس پر طرح آج کے دور کے شدید مسائل اعصابی دباؤ کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ تقریباً مکمل طور پر ختم ہو جاتے ہیں۔ روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔

خون کی تشکیل میں روزے کی افادیت خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے۔ جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑ تی ہے ایک خودکار نظام ہڈی کے گودے کی حرکت پذیر (Stimulate) کر دیتا ہے۔


اس طرح روزے سے متعلق بہت سی اقسا م کی حیاتیاتی برکات کے ذریعے ایک پتلا دبلا شخص اپنا وزن بڑھا سکتا ہے۔ اسی طرح موٹے اور فربہ لوگ صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے اپنا وزن کم کر سکتے ہیں۔

تحریر: محمد یوسف عزمی
 

Advertisement