اسلام آباد:(دنیا نیوز) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے ممبران نے سرکاری ہسپتالوں میں ایم آر آئی مشینوں کے نہ ہونے پر جواب مانگ لیا۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس چیئرمین ڈاکٹر محمد ہمایوں مہمند کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں ایم آر آئی کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ کے دوران ڈاکٹر طارق کا کہنا تھا کہ اس وقت پمز اور پولی میں ایم آر آئی مشین کے لئے 4 کمپنیوں سے رابطہ کیا ہے، اسلام آباد سی ایم ایچ میں دو ایم آر آئی مشینیں فعال ہیں، اسلام آباد کے سرکاری ہسپتال نرم میں ایک مشین فعال ہے، ایک اکتوبر 2020 اور دوسرا 2021 میں یونٹ لگائی گئیں ہے ۔
حکام کی جانب سے کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ 30 سے 40 کروڑ کی ایک مشین ہے، اس لیے ایک کمپنی دوسرے کے خلاف چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے وزارت کے حکام کو ہدایت کی کہ اگر کم پیسوں میں مشین مل جاتی ہے تو اس مشین کے ماڈل پر غور کریں، مریضوں کو جلد از جلد فائدہ ہونا ضروری ہے، پولی کلینک میں 50، ساٹھ سالوں کے بعد ریڈیالوجی کی اپ گریڈیشن کی جارہی ہے، اگر ہم کمپنیوں کے چکر میں پڑ کر ایم آئی آر کی سہولت ہی نہیں دیں گے تو یہ غلط ہوگا۔
کمیٹی نے وزارت صحت کے حکام کو جلد از جلد مناسب قیمت کی مشینیں خریدنے کی ہدایت کردی، قائمہ کمیٹی برائے صحت میں دی پرائم یونیورسٹی آف نرسنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد بل 2022 زیر غور رہا، بل 17 جنوری2021 کو سینٹر نصیب اللہ بازی نے پیش کیا تھا۔
ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر بصیر اچکزئی کا کہنا تھا کہ بحرین حکومت نے فنڈنگ کی ہے، یونیورسٹی کے نام پر اعتراضات کے بعد کیمٹی نے یونیورسٹی نمائندوں کو ایچ ای سی کی ریکوائرمنٹ پوری کرنے کا حکم دے دیا۔