پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اتحاد کے 5 سال میں نشیب و فراز

Published On 04 Jan 2013 09:52 PM 

پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا اتحاد گزشتہ پانچ برسوں میں کئی نشیب فراز سے گزرا اور اب بھی ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے لیکن اس بار دوریاں بظاہر ایک دوسرے سے اختلافات کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایم کیو ایم کی جانب سے کسی اور جماعت کی حمایت کرنے پر ہے۔

ملک میں 2008 ء انتخابات کے بعد ایم کیو ایم کو حکومت کا اتحادی بنانے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کا دورہ کیا اور پھر وہیں ان دونوں جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا۔ 2008 ء سے 2010 ء تک دونوں جماعتوں کے معاملات چھوٹے موٹے اختلافات کے ساتھ چلتے رہے لیکن 27 دسمبر 2010 ء کو ایم کیو ایم نے اتحادیوں کے ساتھ ناروا سلوک جاری رکھنے پر وفاقی سطح پر پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور وفاقی کابینہ سے علیحدگی اختیار کر لی اور چار روز بعد ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صوبائی سطح پر بھی پیپلز پارٹی کو خدا حافط کہہ دیا اور صوبائی اسمبلی میں بھی اپوزیشن بینچوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا لیکن پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کو واپس لیا اور سات جنوری 2011 ء کو روایت برقرار رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو آکر متحدہ کو منا لیا۔ ایم کیو ایم نے پہلے صوبائی حکومت میں دوبارہ آنے کا فیصلہ کیا اور پھر مئی میں وفاقی کابینہ میں ایک بار پھر شمولیت اختیار کر لی لیکن ایک بار پھر آزاد کشمیر انتخابات نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد کو مشکل میں ڈال دیا اور حکومت میں دوبارہ شمولیت اختیار کرنے کے چند ماہ بعد 27جون کو ایم کیو ایم نے پھر نہ صرف وفاقی اور صوبائی سطح پر پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کی بلکہ گورنر بھی مستعفی ہو کر دبئی روانہ ہوگئے تاہم ایک ماہ سے کم عرصے میں ہی گورنر نے دوبارہ اپنا عہدہ سنبھال لیا اور آزاد کشمیر انتخابات پر اپنے مطالبات منوا کر ایم کیو ایم نے ایک بار پھر اکتوبر 2011 ء میں وفاقی اور صوبائی سطح پر پیپلز پارٹی سے اتحاد کر لیا۔ سال 2012 ء میں بھی بلدیاتی نظام کے حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات چلتے رہے لیکن مزاکرات کے زریعے حل کیے جاتے رہے تاہم 2012 ء کے اختتام پر ڈاکٹر طاہر القادری کا اچانک ملکی سیاست میں آنا اور ایم کیو ایم کی جانب سے بھرپور حمایت کا اعلان ہونا پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد کو ایک پھر کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ اب تک دونوں جماعتوں کا یہی کہنا ہے کہ اتحاد قائم رہے گا لیکن کیسے یہ ایک سوال ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ 7 جنوری کے بعد ایم کیو ایم کی جانب سے مزید بڑے فیصلے متوقع ہیں جس کے بعد 5 برسوں کا اتحاد امتحان میں پڑ جائے گا۔