پندرہویں صدی میں پیش آنے والے رومانوی واقعات اس قدر پراثر تھے کہ ان کی جھلک بلوچی شاعری میں نمایاں نظر آتی ہے
کوئٹہ (روزنامہ دنیا ) بلوچی شاعری میں اجتماعیت کے ساتھ انفرادیت بھی ہے۔ بلوچی شعرا قبائلی نظام حیات کے مختلف اخلاقی اور تہذیبی مسائل کو بیان کرتے ہیں۔ قدیم بلوچی شاعری زیادہ تر خارجی ہے لیکن اس میں فطری جذبات اور احساسات کی ترجمانی سادہ اور حقیقت پسندانہ نوع کی ہے۔ اس میں تلواروں کی جھنکار بھی ہے اور محنت کش دلوں کی پکار بھی۔ یہ کامیابی اور فتح، ناکامی اور مایوسی، غرض زندگی کے ہر پہلو کی عکاسی کرتی ہے۔ بلوچی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قصیدہ گوئی نہیں ملتی، اس میں بہادر دشمن کی تعریف تو کی جاتی ہے لیکن محض کسی سردار یا حاکم کی تعریف نہیں کی جاتی۔
عشقیہ شاعری کے ضمن میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ بلوچی شاعری کا محبوب مافوق الفطرت نہیں بلکہ اس زمین کی مخلوق نظر آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ اشعار میں مخصوص طبقے کی ثقافت کی ترجمانی ملتی ہے۔ مثلاً جام درک کی شاعری میں جس تہذیب کی جھلک ملتی ہے وہ اونچے طبقے کی ہے۔ اس نے حسیناؤں کا سراپا بیان کیا ہے اور ’’ڈھاڈھر کا بازار‘‘ میں امرا کی زندگی، طور طریقہ، رہن سہن اور زیورات کو پیش کیا ہے۔ بلوچی شاعری کی عشقیہ داستانوں میں مشہور داستان شہ مرید و حانی 1404ء، بی برگ و گراں ناز 1495ء، میر شہداد و ماہ بار 1500ء اور دوستین شیریں ہیں۔
بلوچی شاعری میں پندرہویں صدی عیسوی کا ربع آخر اور سولہویں صدی عیسوی کا نصف آخر کا دور ادبی لحاظ سے اس لیے بھی اہم قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں کئی رومان ظہور پذیر ہوئے۔ حانی شاہ مرید اور بی برگ و گرا ناز کی عشقیہ داستانیں اسی عہد میں وجود میں آئیں۔ شہداد اور ماہ ناز کی درد انگیز جدائی بھی اس دور میں جنم لیتی ہے۔ ان رومانی داستانوں ہی کا اثر ہے کہ بلوچی شاعری کے مزاج میں رزمیت کے ساتھ رومانویت کا عنصر بھی داخل ہو گیا ہے۔ ان داستانوں میں اظہار مکالموں کی صورت میں ہے یعنی واقعات کو کردار اپنی زبانی بیان کرتے ہیں۔ اس سے مغالطہ ہوا کہ یہ اشعار انہیں کے ہیں۔ حالانکہ یہ دوسرے شاعروں کی نظمیں ہیں جو انہوں نے مکالماتی انداز میں لکھی ہیں۔