کلثوم نواز میری بہن ہیں اﷲ انہیں صحت دے ملاقات میں انہیں منانے کی کوئی بات نہیں ہوئی۔
لاہور: ( جاوید ہاشمی ) نوازشریف سے ملاقات میں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت موضوع بحث ہی نہیں آئی جب شمولیت کا ایجنڈا آئے گا تو دیکھیں گے مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت میرا اپنا گھر ہے اور میں اپنے گھر گیا تھا۔ کلثوم نواز میری بہن ہیں اﷲ انہیں صحت دے ملاقات میں انہیں منانے کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ مریم نواز میری بیٹیوں کی طرح ہیں انہوں نے مجھے گھر میں یہ کہہ کر خوش آمدید کہا کہ اپنے گھر واپسی پر خوش آمدید۔ نوازشریف سے بہت گلے شکوے کیے میں دلی طور پر کبھی مسلم لیگ (ن) سے دور ہی نہیں ہوا تھا اور اس وقتی دوری میں بھی میاں نوازشریف کو اپنا لیڈر کہتا رہا۔ میں نے پوری زندگی پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے وقف کی۔ جس کا احساس مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت کو ہے۔ میری مسلم لیگ (ن) میں باضابطہ شمولیت کا جب مرحلہ آئے گا تو اس پر اظہار کروں گا۔ میرے دوست میری ملاقات کو حلقوں کی سیاست کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں حالانکہ یہ میرا ایشو ہی نہیں ابھی تو حلقے بھی بننے اور ٹوٹنے ہیں جب یہ وقت آئے گا تب دیکھیں گے۔
اپوزیشن لیڈر نے درست بات کی ہے کہ صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے نوازشریف اور میری جنگ پارلیمنٹ کی بالادستی ہے اور اس مرحلے میں پارلیمنٹ اور جمہوریت کی جنگ میں میاں نوازشریف کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس وقت پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے ڈٹ جانا ہوگا تا کہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہو اور ادارے مضبوط ہو کراپنا اپنا کام کریں۔ ماڈل ٹاؤن میں 13 افراد کا مارا جانا، ایک طرح سے اس کی ذمہ داری پنجاب حکومت پر عائد ہوتی ہے یہ سانحہ کافی دیر چلتا رہا اسے روکا جا سکتا تھا، کوتاہی کہاں ہوئی اس کا جواب پنجاب حکومت بہتر طور پر دے سکتی ہے، ہمارے معزز جج صاحبان کو جب بھی آئین سے متعلق فیصلے کرنے پڑے تو سپریم کورٹ نے کبھی آئین کا تحفظ نہیں کیا بلکہ آئین توڑنے والے محض ایک فرد کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت بھی دیدی، یہ ہماری بد قسمت تاریخ ہے، عدلیہ پر جب برا وقت تھا تو ہم نے اس کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ اسے بحال بھی کروایا، لیکن افتخار چوہدری نے بحال ہونے کے بعد میری درخواست کو سننا بھی گوار ا نہ کیا، آج بھی فاضل جج صاحبان نے نواز شریف کو اصل مقدمہ کے بجائے اقامہ پر سزا دی حالانکہ انہیں پاناما پر سزا دینی چاہیے تھی لیکن ان کے پاس ایک منتخب وزیراعظم کو برطرف کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا اسی لئے نیب کو مقدمہ میں شامل کیا گیا۔