چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ راؤ انوار کا ایک اور خط آیا ہے، معلوم نہیں یہ اصلی ہے یا نقلی، لیکن اسے فائل میں رکھوا دیا ہے ، راو انوار کہتے ہیں اکاونٹ کھول دیں ، رپورٹ آرہی ہے لیکن پراگریس نہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے بتایا کہ سکیورٹی اداروں کے مطابق تمام مشتبہ افراد نے موبائل نمبر بند کر دئیے ہیں، آئی ایس آئی کے مطابق سندھ پولیس کو تکنیکی معاونت فراہم کر رہے ہیں ، ایم آئی کے مطابق انکے پاس ٹیکنیکل معاونت کے ذرائع محدود ہیں لیکن پولیس سے تعاون کر رہے ہیں۔
عدالتی استفسار پر آئی جی سندھ نے کہا کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی سندھ پولیس سے معاونت کر رہے ہیں ، پہلی ایف آئی آر منسوخ کر کے مقدمے کا چالان داخل کر دیا ہے ۔ ابتک 12ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں ، باقی ملزمان کی گرفتاری کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ظاہر ہے کوئی نہ کوئی ملزمان کو شیلٹر فراہم کر رہا ہے ، کیا شرپسند انہیں تحفظ فراہم کر رہے ہیں ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ریاستی اتھارٹی پر سوال اٹھنا اہم ہے ، کیا راؤ انوار سیاسی پناہ میں نہیں ہے ، راوانوار سندھ میں نہیں اس کی آخری لوکیشن بھیرہ تھی ، بطور ذمہ دار آفیسر ایسا نہیں کہہ سکتا کہ راؤ انوار سیاسی پناہ میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہوسکتا ہے سی سی ٹی وی فوٹیج سے مدد مل جائے ہم وہ دیکھنا چاہتے ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیج پر بریفنگ کراچی رجسٹری میں ان کیمرا ہوگی۔