چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ میں ہوں تو مارشل لا نہیں، اس کی ضرورت غالباً اس لئے پیش آئی کہ ماضی میں عدالتوں کا کردار ملک میں مارشل لا کو آئینی اور قانونی تحفظ دینے کے حوالہ سے اچھا نہیں رہا اور اب بھی اس طرح کا تاثر دیا جا رہا تھا کہ شاید دیگر اداروں سے ملکر کوئی خاص ایجنڈا بن رہا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے خیالات اور جذبات کا احاطہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس کے ذریعے ملک میں اچھی، موثر اور بامقصد جمہوریت کی بات کی ہے اور جمہوریت کو اس کے اصل مقاصد تک محدود رکھنے اور اس حوالہ سے نتائج کی فراہمی کی ذمہ دار منتخب حکومتیں اور سیاسی جماعتیں ہیں لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ عوام سے گورننس، احتساب اور قومی و عوامی مسائل کے حل کے نام پر ووٹ حاصل کرنیوالے حکمران اور سیاستدان اس مینڈیٹ کے تقاضے کیوں پورے نہیں کر پاتے، کیا انہیں اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات عزیز ہوتے ہیں یا انہیں کام کرنے نہیں دیا جاتا، جمہوری عمل کے حوالہ سے ایک بات مسلمہ ہے کہ اگر منتخب حکومتیں اپنے مینڈیٹ کے مطابق عوام کے اعتماد پر پوری اترتی ہوں، انصاف کی فراہمی یقینی بن رہی ہو اور جمہوریت کے ثمرات ان تک پہنچ رہے ہوں تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ منتخب حکومتوں پر شب خون مارا جاتا ہو۔
اگر نتائج فراہم کرنیوالی حکومتوں پر شب خون مارا جاتا ہو تو عوام اپنی منتخب حکومتوں کی بقا کیلئے سڑکوں پر نکلتے ہیں جس کی بڑی مثال ترکی کی حکومت ہے جہاں محدود بغاوت عوام کے جذبات کے سامنے ڈھیر ہو گئی اور جمہوریت کو فتح حاصل ہوئی، پاکستان میں بھی مینڈیٹ کی حامل منتخب حکومتیں قائم ہیں، اہل سیاست کے طرزعمل، ان کے بیانات اور جذبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس مینڈیٹ کے حوالہ سے بتانے کیلئے کچھ نہیں اور وہ ایک دوسرے پر الزامات، گالی گلوچ کے ذریعہ ایک نئی صورتحال طاری کئے ہوئے ہیں اور خصوصاً ان کا طرزعمل انتہائی قابل اعتراض ہے، جس کا اپنا کچھ داؤ پر نہیں مگر وہ اپنے مذموم مقاصد کے تحت ملکی وقار اور جمہوری اقدار کو داؤپر لگائے ہوئے ہے اور اب آنیوالے حالات اور انتخابات پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے جوڈیشل مارشل لا کی بات کر رہے ہیں۔ جب بھی کوئی ادارہ اپنے اصل مقاصد پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے نتائج فراہم کرتا ہے تو وہ عوام کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے، آج پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار جو کہتے اور کرتے نظر آ رہے ہیں وہ دراصل حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری تھی اور ہے، ملک کے اندر موثر احتسابی عمل اور گورننس کی فراہمی دراصل حکومتوں کی ذمہ داری تھی مگر انہوں نے ایسا کیوں نہ کیا یہ انہیں بتانا اور سمجھانا چاہیے۔
احتساب کمیشن کی تجویز دینے کے باوجود احتساب کمیشن کیوں حقیقت نہ بن سکا، پاناما لیکس پر کوئی حل پارلیمنٹ کے اندر کیوں نہ ہو سکا کہ بالآخر یہ ذمہ داری عدالت عظمیٰ کو اٹھانا پڑی اور آج وہ پاناما کیس سمیت حکمرانوں اور سیاستدانوں کی جانب سے روا رکھے جانیوالے غیر قانونی، غیر آئینی اقدامات کا نوٹس لیتے ہوئے اس پر عدالتی احکامات صادر کرتے نظر آتے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کا درست کہنا ہے کہ ملک کیلئے اہم ترین لیڈر شپ جسے ملکی ترقی، قانون کی حکمرانی اور لوگوں کو بلاتفریق انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے، حکومتوں کی کارکردگی کا بحیثیت مجموعی جائزہ لیا جائے تو ان کے طرزعمل ،اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ مذکورہ ایشوز پر اقدامات نہ کر سکے بلکہ وہ خود ان پر اثرانداز ہوتے نظر آئے، اس امر میں شک نہیں کہ چیف جسٹس جو کر رہے ہیں اس کی ضرورت تھی بالآخر کسی نہ کسی نے تو آگے بڑھنا تھا ان کے خیالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنا نام تاریخ میں رقم کرانا چاہتے ہیں تو پھر عدالتوں سے واقعتا انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، شفاف اور غیر جانبدارانہ انصاف ہی عدلیہ کی عزت و تکریم کا باعث بنے گا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے جمہوریت سے کمٹمنٹ کا اظہار یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا اصل کردار بھی جمہوریت کیساتھ مشروط ہے۔ ایک جانب بڑے فیصلوں کی بنا پر عدلیہ کی اہمیت بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب خود عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں کیس سنے نہیں جا رہے جو انصاف کے طلب گار ہیں، تقریباً 38 ہزار کیس سپریم کورٹ میں، ڈیڑھ لاکھ لاہور ہائیکورٹ میں، 94 ہزار سندھ ہائیکورٹ میں، 30 ہزار پشاور ہائیکورٹ میں اور چھ ہزار بلوچستان ہائیکورٹ میں ہیں جن کے فیصلے ہونا باقی ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ کورٹس کو ملا کر تمام اعلیٰ کورٹس میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد 18 لاکھ ہے جس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے آج اگر بحیثیت منتخب حکومتوں اور جمہوریت کی ناکامی کا تاثر ابھر رہا ہے تو اس کی ذمہ دار صرف مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتیں بھی ہیں۔