چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ وزیر مملکت برائے کیڈ طارق فضل چوہدری سے رابطہ نہیں ہوسکا وہ بیرون ملک ہیں۔ آئندہ پیر تک کا وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وقت ہی تو نہیں ہے، ہم آج اس کیس کو نمٹانا چاہتے تھے، اس کیس میں ایک ایشو بوٹینیکل گارڈن میں تجاوزات، دوسرا غیر قانونی تعمیرات اور تیسرا راول ڈیم میں گندے پانی کا ہے۔ جو تعمیرات ہو چکی ہیں انھیں ریگولر کریں یا پھر جرمانہ کریں۔ کیس کو مزید لمبا نہیں کر سکتے۔ تمام فریق بیٹھ جائیں اور مسائل کا حل نکالیں۔
چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ غیرقانونی تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کیلئے وفاقی حکومت کو خط لکھیں گے، اس سے قبل سیٹلائٹ سروے بھی کرانا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے چیئرمین سی ڈی اے سے کہا کہ خط لکھنے سے بہتر ہے آپ فائل لے کر خود ہی وزارت میں چلے جائیں، ہر چیز کا حل موجود ہے بس کام کرنے کا عزم ہونا چاہئے۔ اصل ایشو راول ڈیم کو گندگی سے بچانا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ابھی تک مسائل کے حل کا پلان نہیں دیا گیا، چیئرمین صاحب نے ابھی تک کیا کیا، مہربانی کر کے جھیل میں گندا پانی جانے سے روکنے کا پلان دیا جائے۔ چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ راول ڈیم کو بچانے کیلئے مقامی افراد اپنے گھروں میں سیپٹک ٹینک بنائیں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیپٹک ٹینک بنانا عارضی حل ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیوں نہ صوبائی وزیر رانا ثنااللہ کو بلالیں کیونکہ پنجاب میں اصل وزیر وہی ہے، مرکز اور صوبے میں بھی انہی کی حکومت ہے۔ آئندہ سماعت تک تمام مسائل کا حل لے کرآئیں، جن جن کو بلانا ہے ان کے نام بھی دے دیں۔ بنیادی حقوق یا مفاد عامہ کے مقدمات میں التوا نہیں دیں گے۔ عدالت نے راول ڈیم کی سرکاری اراضی لیز پر لینے والوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کر دی۔