لاہور: (روزنامہ دنیا) سندھ میں کوئلے کے ذخائر کا شمار دنیا کے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے، اس خطے سے پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے۔ میزبان پروگرام "دنیا کامران خان کے ساتھ" کے مطابق یہ خطہ پاکستان کیلئے گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بجلی پیدا کرنے کیلئے کوئلے کے ذخائر پر بھرپور انداز میں کام ہورہا ہے۔ اینگرو کا ادارہ حکومت سندھ سے ملکر کام کر رہا ہے اور بہت جلد بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔
حکومت سندھ نے تھر کے علاقے میں اس ماہ مائی بختاور ایئر پورٹ کا افتتاح بھی کر دیا ہے۔ انفراسٹرکچر کے دیگر کام بھی ہو رہے ہیں۔ دنیا نیوز کے نمائندہ خصوصی مسعود رضا نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ تھر میں دنیا بدل رہی ہے، تھر کا نام آتے ہی خشک سالی کی تصویر ذہن میں ابھرتی ہے مگر کہا جاتا ہے کہ یہاں پر موجود کوئلے کے ذخائر نہ صرف تھر بلکہ پاکستان کی قسمت بدل سکتے ہیں، 21ہزار ایکڑ پر پھیلے اس صحرا میں شاید تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے، کوئلے کے ذخائر کے آس پاس انفرا سٹرکچر بن گیا ہے۔ جہاں پکے راستے نہیں تھے وہاں حکومت نے سڑکیں بنا دی ہیں۔ یہ منصوبہ تھر کول چائنہ کوریڈور کا حصہ ہے، جس پر حکومت سندھ ،سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی اور چائنہ مشینری انجینئرنگ کارپوریشن 1.13ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اس سال دسمبر تک 330 میگاواٹ کا بجلی گھرپیداوار شروع کردے گا جس کے بعد اگلے تین برس میں مزید 5 کارخانے بجلی پیدا کریں گے ۔تھر کوئلے سے بجلی کی پیداوار اس علاقے کے عوام کیلئے صحت، تعلیم ،ذرائع نقل و حمل اور روزگار کے مواقع پیدا کرے گی۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے 30کروڑ روپے سے ایک جامع پروگرام شروع کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے جس کے تحت تھر کے 5000 بچوں کیلئے جدیدسکول کھولنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
اسی طرح صحت کی سہولیات کے منصوبہ پر بھی غور ہورہا ہے جس میں انڈس ہسپتال اور این آئی سی کا اہم کردار ہے ۔ زیر زمین کھارے پانی سے فصلوں کی کاشت کا منصوبہ بھی شروع کیا گیا ہے، دعویٰ ہے کہ پورے ملک میں معاشی انقلاب کا چشمہ تھر سے پھوٹے گا، نہ صرف سستی بجلی ملے گی بلکہ کوئلے کی برآمد سے بھی زرمبادلہ کمایا جائے گا،مگر کیا ضمانت ہے کہ کوئلے کا یہ کاروبار ہمیں ماحولیاتی آلودگی سے دو چار نہیں کرے گا؟
ان کارخانوں سے نکلنے والا فضلہ کیسے ٹھکانے لگایا جائے گا،یہ ذمہ داری بھی اس منصوبے پر کام کرنیوالے سرکاری اور نجی اداروں کی ہے، ورنہ خوشحالی کا یہ سفر بد حالی کی داستان بھی بن سکتا ہے۔ سندھ ایگرو کول مائننگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر شمس الدین شیخ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ منصوبہ 2016 میں شروع کیا گیا، توقع ہے مئی 2019 میں مکمل ہو جائے گا، تھر کول کی بجلی سب سے سستی ہے، جرمنی سے بوائلر منگوا رہے ہیں جو آلودگی کوپوری طرح کنٹرول کے سکیں گے۔