لاہور: (روزنامہ دنیا) سرزمینِ سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ دھرتی ایسے مردانِ قلندروں کا مسکن بنی جنہوں نے اپنے عمل و کردار اور بول کے ذریعے تطہیری عمل کو پروان چڑھایا ۔ اس سے معاشرہ امن، سکون و سلامتی کا گہوارہ بن گیا۔ اِن ہی میں ایک نام صوفی شاعر حضرت سچل سرمستؒ کا ہے۔
آپؒ 1739ء میں خیر پور کے چھوٹے سے گاؤں درازا میں حضرت صلاح الدین کے گھر میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کا پورا خاندان مذہبی تھا۔ آپؒ کا اصل نام عبد الوہاب تھا مگر صاف گوئی دیکھ کر لوگ انہیں ’’سچل‘‘ یعنی سچ بولنے والا کہنے لگے۔ بعد میں ان کی شاعری کے شعلے دیکھ کر سچل کے ساتھ ’’ سرمست‘‘ بھی کہا جانے لگا۔آ پؒ کا سلسلہ نسب خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ سے جا ملتا ہے۔ جلال بھی آپؒ کے مزاج میں شامل تھا،
آپؒ کے والد محترم نے آپ کی تعلیم وتربیت پر اول روز ہی سے تو جہ دینا شروع کردی تھی۔ روزانہ آپؒ کے کانوں میں اذان دیتے اور آپؒ کو گود میں لے کر بلند آواز میں قرآن مجید کی تلاوت سناتے۔ آپؒ کی عمر جب چھ برس تھی تو والد محترم کا رضائے الٰہی سے وصال ہو گیا۔ پھر آپؒ کے چچا میاں عبد الحق نے آپؒ کی تربیت و پرورش کی۔ کچھ عرصے بعد آپؒ ممتا کی محبت و صحبت سے بھی محروم ہو گئے۔ والدہ کے انتقال کے بعد آپؒ کے چچا نے آپؒ کیلئے ایک حبشی آیا کا انتظام کیا جس نے بڑی شفقت و محبت سے آپ کی پرورش کی۔
سچل سرمستؒ آپ کو اماں کہہ کر پکارتے تھے۔ آپؒ نے جلد ہی قرآن پاک حفظ کر لیا۔ چودہ برس کی عمر میں عربی و فارسی دونوں زبانوں پر عبور حاصل کر لیا۔ تعلیم کی تکمیل کے ساتھ آپؒ کے چچا نے آپؒ کو علم باطنی سے بھی منو رکیا۔ شریعت کے ساتھ طریقت کے مراحل انتہائی توجہ سے طے کیے، پھر اپنے چچا میاں عبد الحق کے ہاتھوں بیعت ہوئے۔ معرفت وسلوک کی منزلیں طے کروانے کے بعد آپؒ کے مرشد وچچا نے آپؒ کو خرقہ خلافت سے بھی نوازا۔ اس موقع پر جو نصیحت آپ نے فرمائی وہ متلاشیانِ طریقت کیلئے ہر زمانے میں رہنمائی کرتی رہے گی۔
آپؒ کے مرشد نے فرمایا، بیٹا عشق الٰہی اپنی شال، ذکر الٰہی اپنی قال اور حکم الٰہی کو اپنا مال بنانا، قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالو، خدمت خلق کو اپنا شعار، عاجزی و انکساری کو اپنا وقار اور عبادت وریاضت کو اپنا ہتھیار بناؤ۔ یہ حیات ناپائیدار محض عرصہ امتحان وآزمائش ہے۔ لہٰذا اس کی زیبائش میں نہ کھو جانا، مو ت کو ہمہ وقت یاد رکھو، خدا اور رسول ﷺکو لمحہ لمحہ دل میں آباد رکھو۔
حضرت سچل سرمستؒ نے سندھ کے کلہوڑہ اور تالپور حکمرانوں کے ایسے دور اقتدار میں زندگی گزاری جہاں انتہا پسندی و مذہبی نفرتیں اپنے عروج پر تھیں۔ ایسی فضا میں سچل سرمستؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے امن کی دھر تی کو پھر سے امن کا گہوارہ بنا دیا۔ آپؒ ہفت زبان شاعر کہلاتے ہیں کیونکہ آپؒ کا کلام دنیا کی سات زبانوں میں دستیاب ہے۔ سچل سرمستؒ کو آپ کے چچا ومرشد نے اپنی دامادی میں داخل کیا، یعنی ا پنی بیٹی کی شادی آپ سے کروائی مگر ان کی کوئی اولا د نہیں ہوئی۔
حضرت سچل سرمستؒ کی تقریباً آٹھ سال کی عمر میں اپنے زمانے کے عظیم صوفی بزرگ ولی کامل حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائیؒ سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کا احوال کتب میں موجود ہے کہ آپؒ کے مرشد جو خود بھی حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائیؒ کے ہم عصر تھے شاہ عبد اللطیف بھٹائیؒ سے بڑی عقیدت ومحبت کے تعلقات رکھتے۔ ایک دن میاں عبد الحق نے شاہ عبد اللطیفؒ کو اصرار کر کے اپنے گھر دعوت پر مدعو کرنا چاہا تو آپؒ نے فرمایا کہ صرف ایک شرط کہ اُس ملاقات میں عبدالوہاب فاروقی یعنی سچل سرمستؒ بھی موجود ہوں، میاں عبد الحق نے فوراً حامی بھر لی۔
ملاقات کے وقت حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائیؒ نے قوت کشف سے جان لیا کہ آپؒ مستقبل میں معرفت کے اعلیٰ مقام پر ہوں گے۔ شاہ صاحبؒ نے سچل سرمستؒ سے وحدانیت سے متعلق چند سوالات کئے۔ جن کا مدبرانہ جواب سن کر آپؒ کے مرشد بھی حیران ہو گئے۔ مرشد و چچا کے انتقال کے بعد سچل سرمستؒ نے سخی قبول محمد کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ آپؒ نے خرقہ خلافت سے بھی نوازا۔ 14رمضان 1242ھ کو آپؒ کا وصال ہوا۔ ہر سال 14 رمضان کو آپؒ کا عرس انتہائی عقیدت واحترام سے منایا جا تا ہے۔ سچل سرمستؒ کی پوری زندگی حقوق اﷲ اور حقوق العباد میں گزری، آپؒ عشق الٰہی میں مستغرق رہتے۔ خلافِ شرع کسی عمل کا حصہ بنے اور نہ کسی کو بننے دیا۔ ارکا ن اسلام پر سختی سے کا ربند رہے ۔
تحریر: سید محمد رفیق شاہ