لاہور: (روزنامہ دنیا) اپنے گردوپیش کی باتوں کے علاوہ پہلی ملاقات میں اکثر ذاتی معلومات کا تبادلہ بھی شامل ہوتا ہے۔ یعنی آپ کو پیش آنے والے واقعات، تجربات، احساسات، خواہشات اور اندیشے، جن کا دوسروں کو اگر آپ نہ بتاتے تو علم نہ ہوتا۔ دورانِ گفتگو جہاں غیر معروضی اور غیر جانبدارانہ باتیں کرنے سے آپ کی ذہنی اور عقلی سطح کا پتہ چلتا ہے وہاں آپ کی خود اپنے متعلق باتوں سے آپ کے جذباتی معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔
کچھ اپنے بارے میں بتانا بڑی تقویت کا باعث ہوتا ہے۔ دوسروں کو اپنے متعلق آگاہی بخشنے سے، آپ دوسروں کے لیے زیادہ مانوس اور پسندیدہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ بھی آپ سے بے تکلف ہونے اور اپنا حال سنانے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ کیا آپ کو کوئی ایسا واقعہ یاد ہے جب کسی نے آپ کو اپنے متعلق کوئی راز کی بات بتائی ہو اور آپ کے دل میں اس کے لیے زیادہ گرم جوشی کے احساسات پیدا ہوئے ہوں؟ اپنا حالِ دل سنانے کی خاصی اہمیت ہے اور اس امر کو سمجھنا چاہیے۔
اگر آپ کو محسوس ہو کہ دوسرے اس جانب رغبت رکھتے ہیں تو آپ بے تکلف ہو کر اپنا حال دل سنا سکتے ہیں۔ اگر آپ کو محسوس ہو کہ دوسروں کو ان باتوں سے دلچسپی نہیں پھر دل کی بات دل ہی میں رہنے دیں۔ ایسے فرد، جس سے ماضی میں آپ نے رابطہ کرنے سے گریز کیا تھا، اگر آپ رابطہ قائم کرنے کے خواہش مند ہوں اور آپ کو احساس ہو کہ اپنی بابت کچھ بتا دینا مصلحت کے تقاضوں کے مطابق ہے تو آپ کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کریں۔ آپ سوچتے ہیں کہ وہ کون سا طریقہ اختیار کر یں جس سے رابطہ بھی ہو اور پہلی ملاقات میں تعلق بھی قائم ہو جائے۔ پھر آپ کے ذہن میں کئی سوالات آتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ میں اپنی بابت کیا کہوں؟ کیا میں خود کو چھپاؤں؟ اگر میں اپنے متعلق کھل کر بات کروں تو کیا وہ یہ نہیں سمجھیں گے کہ میں اپنی بابت بات کرنے کے لیے بے تاب ہوں؟
بعض دفعہ آپ زبان پر آئی ہوئی بات کو روک لیتے ہیں۔ آپ کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر آپ نے بات کہہ دی تو شاید آپ کو منفی انداز میں دیکھا جائے یا اس سے بھی بدتر صورت کا سامنا کرنا پڑے یعنی آپ کو مسترد کر دیا جائے۔ اسی طرح بعض دفعہ آپ نتائج سے لاپروا ہو کر اپنی قبولیت کی امید کے ساتھ اپنے سارے پتے میز پر کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ گفتگو میں بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے۔ اکثر یہ اپنی ذات سے متعلق شروع ہو کر دوسرے موضوعات کی طرف چلی جاتی ہے اور وہاں سے پھر ذاتی معاملات کی طرف آ جاتی ہے۔
ہم کسی طرح اپنی ذات سے متعلق معلومات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ اس کے لیے تیار ہونے کا ایک طریقہ رسمی سا ہے جو بالعموم یوں ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اپنا نام بتاتے ہیں پھر درپیش صورت حال پر اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنی رہائش کا مقام، اپنے ذریعہ معاش اور اپنے خاندانی پس منظر سے متعلق بات چیت کرتے ہیں۔ یہ وہ عام اور بنیادی امور ہیں جن پر ہم ایک دوسرے سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے گفتگو کرتے ہیں۔ جب آپ کسی نئے فرد سے ملتے ہیں تو آپ زندگی سے متعلق ان بنیادی سوالوں کا کامیابی سے سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، خواہ آپ کا ماضی اور ذریعہ معاش قابل فخر نہ رہا ہو۔ اگر آپ ان سوالوں کے جواب دیانت داری اور مثبت انداز میں دیتے ہیں تو دوسرے آپ سے زیادہ متاثر ہوں گے اور آپ کو زیادہ جاذب توجہ پائیں گے۔ آپ نے خود کو زیادہ سنجیدہ نہیں بنانا ہوتا۔
اگر آپ اپنے ذریعہ روزگار کو قابل فخر نہیں سمجھتے اور اس کا اظہار کرتے ہیں تو بھی لوگوں کو بتائیں کہ اس ذریعہ معاش کو آپ نے کیوں اختیار کر رکھا ہے یا اس میں آپ کی کیا دلچسپی ہے۔ یا اگر آپ کا قیام عارضی طور پر سسرال والوں کے ہاں ہے اور اسے اتنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تو اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے: ’’یہ سب گھر والی بات ہے۔‘‘
آپ کو مشکل سوالات کا جواب بھی دینا ہو گا۔ اگر آپ دلچسپی پیدا کرنے والی اس ابتدائی گفتگو سے پہلو تہی کریں گے تو لوگوں کو شک گزرے گا کہ آپ اپنی حالت سے مطمئن نہیں ہیں یا کچھ چھپا رہے ہیں۔ لوگوں کے تخیل کی پرواز بڑی تیز ہوتی ہے اور آپ ان سے جو حقیقت چھپا رہے ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ بدتر کیفیت کی موجودگی ان کے ذہن میں سما سکتی ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ گرم جوشی اور باہمی تعارف کے رسم و رواج سے واقف ہیں اور کم از کم غیرارادی طور پر اس کی پیروی بھی کرتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو بنیادی معلومات دیتے اور حاصل کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم بجا طور پر یہ ’’پیغام‘‘ دیتے ہیں کہ ’’میں بالکل بے خطر اور ٹھیک ٹھاک فرد ہوں‘‘ زیادہ بامقصد بات چیت کرنے کے لیے گرم جوشی پیدا کرنے کا یہ آسان طریقہ ہے۔ مختصر یہ کہ یہ گفتگو تعلقات کی استواری میں بنیاد کا کام دیتی ہے۔
بلاشبہ ایک دوسرے کی جان پہچان کے لیے یہ رسمی تعارف کوئی متعین یا مخصوص لائحہ عمل نہیں بلکہ ہر گفتگو کا ایک اپنا ڈھنگ ہوتا ہے جو اس میں روانی لاتا اور اسے ترتیب دیتا ہے۔ لیکن اگر آپ اس معمول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گفتگو کا آغاز کسی ایسے موضوع سے کریں جو آپ کے ذہن پر چھایا ہوا ہو، یا اپنی ذات کی بابت معلومات پر مشتمل غیر معروف اور مبہم ہو تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی صحبت دلچسپی کا باعث بنے لیکن زیادہ امکانات ہیں کہ آپ دوسروں کے سکون اور اطمینان کو غارت کرنے کا سبب بنیں۔
تحریر: ولیری وائٹ