عمران خان کا عمل: بحث اہل علم کو کرنی چاہیے

Last Updated On 29 June,2018 09:52 am

لاہور: (تجزیہ: ہارون الرشید) عمران خان نے خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ کے مزار پہ دروازے کی دہلیز کو جو بوسہ دیا اس پہ جاری بحث اصلاً سیاسی ہے۔ ایسے مکاتبِ فکر کے ایسے بعض علما درباروں کی زیارت کے جو قائل نہیں، عمران خان کے لیے دلائل دے رہے ہیں۔ دوسری طرف اس مکتبِ فکر کے بعض علما جو اس عمل کے پرجوش حامی ہیں، اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جہاں تک عامیوں کا تعلق ہے، اخبار نویس اور سیاسی کارکن و رہنما جن میں شامل ہیں، ذاتی رائے پہ اصرار سے انہیں گریز کرنا چاہیے۔

یہ شریعت کا معاملہ ہے۔ اہلِ علم ہی کو اس پر بات کرنی چاہیے ۔ ان لوگوں کو جو مفتی کے منصب پر فائز ہوں۔ مفتی اگر نہ ہوں تو کم از کم زندگی کا قابلِ ذکر حصہ فقہ پر غوروفکر میں بسر کیا ہو۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک دلچسپ اور ہنگامہ خیز دن ہے کہ ہزاروں ایسے  مفتی  بروئے کار آئے ہیں جنہوں نے علما کی رائے معلوم کرنے کا تکلف بھی نہیں کیا اور کمال زوروشور سے بحث میں کود پڑے ہیں۔ امام احمد رضا خان بریلویؒ کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا: اگر جذباتی نہ ہوتے تو (جہاں تک فقہ کا تعلق ہے ) اس عہد کے امام ابوحنیفہؒ تھے۔ ’’اس عہد کے ‘‘ الفاظ غالباً اس جملے میں اہم ترین ہیں۔ امام احمد رضا خان قبر کو بوسہ دینے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس باب میں فقہا کی آرا مختلف ہیں۔ اصرار ان کا یہ ہے کہ دین کے باب میں آخری درجے کی احتیاط روا رکھنی چاہیے۔ اس طرح کے معاملات میں رجوع علما سے کرنا چاہیے۔ ان علما سے جو سیاسی مصلحت نہ رکھتے ہوں۔ سیاق و سباق کو ملحوظ رکھیں، رورعایت اورتعجیل سے کام نہ لیں۔

رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کا شمار محتاط علما میں ہوتا ہے۔ سوال کیا گیا تو آپ نے کہا: احترام اور محبت سے چوکھٹ کو چومنا حرام نہیں مگر دہلیز چوکھٹ نہیں۔ عمران خان اگر اسے اطراف سے چومتے تو ایک دوسری بات ہوتی دہلیز کو چومنا موزوں نہ تھا۔ جہاں تک قبر کو سجدے کا تعلق ہے اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اگر تعظیم کی نیت سے ہو تو حرام ہے ۔ عبادت کے خیال سے تو صریحاً کفر ہے۔ عمران خان نے یہ اقدام کس کے کہنے پر کیا؟ کیا اپنی اہلیہ کے مشورے پر’ چشتیہ سلسلے سے ‘ جن کا تعلق ہے ۔ جن کے خاندان کی خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ کے خاندان میں شادیاں ہوئی ہیں۔ اگر ایسا ہو تو یہ خوش ذوقی اور ہوش مندی کا مظاہرہ نہیں۔ اس لئے کہ کسی سلسلے میں بیعت ہونا ایک بات ہے اور احکامِ شریعت کا ادراک ایک بالکل دوسری چیز۔ برسوں کی ریاضت اس کے لیے درکار ہوتی ہے ، لڑکپن اور جوانی میں۔ اگر ایسا ہے تو یہ گمان ہو سکتا ہے کہ عقیدت سے زیادہ قبولیت دعا کا جذبہ کارفرما ہے۔ دعا تو ظاہر ہے کہ وہ اقتدار ہی کی مانگتے ہیں۔ اس ا مکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ کسی نے اقبالؔ کا شعر انہیں سنایا ہو کہ کیمیا پیدا کن از مشتے گلے بوسہ زن برآستانے کاملے ’’خاک کی مٹھی سے کیمیا پیدا کرو۔ مرد کامل کے آستانے کو بوسہ دو۔‘‘ اب آستانے کو چومنا ایک اور بات ہے اور دہلیز کو بالکل دوسری۔

مزید برآں شعر فتویٰ نہیں ہوتا، خواہ اقبالؔ ہی کا کیوں نہ ہو۔ کم ہی اس کے معنی پوری طرح لغوی ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک بزرگانِ دین سے محبت کا تعلق ہے تو نکتہ واضح رہنا چاہیے کہ محبت ایک بے قابو کر دینے والا جذبہ ہے ۔ اقبالؔ نے کہا تھا: فرط عقیدت سے اگر کوئی سرکارؐ کے مرقد کو چومے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث کے شرکا نے سیدنا بلال حبشیؓ اور صحابی رسول ابو ایوب انصاریؓ کے واقعات کا حوالہ دیا ہے۔ استنبول کے نواح کی مٹی اوڑھ کر سوئے ہوئے جلیل القدر ابو ایوب انصاریؓ کو اس حال میں دیکھا گیا کہ ان کے گال مزار مبارک کو چھو رہے تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ کا واقعہ زیادہ مشہور ہے ۔ دمشق میں مقیم خواب میں آپؓ نے سرکارؐ کو دیکھا کہ طلب فرما رہے ہیں۔ مدینہ منورہ پہنچے اور اس مٹی کو چوما جس کے نیچے رحمت اللعالمین آرام فرما ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اولیا کرام حتیٰ کہ اصحابؓ رسول کو بھی عالی مرتبتؐ سے تشبیہ نہ دینی چاہیے۔ وہ اللہ کے بندوں میں شامل ہیں کہ قرآن کریم آپؐ کو ’’خیرالبشر‘‘ کہتا ہے مگر کئی اعتبار سے آپؐ ایک کامل استثنا ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں آپؐ تشریف لے گئے۔ معراج کی سعادت آپؐ کو حاصل ہوئی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سمیت کسی جلیل القدر پیغمبر نے بھی جس کا تصور تک نہ کیا ہوگا، درود میں جن کا اسم گرامی آپ کے ساتھ لیا جاتا ہے۔

قرآن کریم آپؐ کو ’’دمکتا ہوا سورج‘‘ قرار دیتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے ( محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہ درود بھیجتے ہیں۔ آپؐ کو نمونہ کامل کہا گیا ہے ۔ ’’تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ مکمل نمونہ ہیں۔‘‘ قرآن کریم آپؐ کی زندگی کی قسم کھاتا ہے، زندگی کے ہر لمحے کی ’’ قسم ہے ’ تیری عمر کی’’۔ بار بار اللہ کی آخری کتاب میں یہ کہا گیا، اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسولؐ کی۔ واضح طور پر ختم المرسلین اس سے مراد ہیں۔ کوئی دوسری زندگی نہیں جو اس طرح محفوظ رکھی گئی ہو۔ آپؐ کے اقوال اور اعمال کا ہر لمحہ امت نے یاد رکھنے کی سعی کی…اور ہر ممکن احتیاط کے ساتھ۔ منکرینِ حدیث کی بات دوسری ہے ’ جو امّت کا حصہ نہیں‘ وگرنہ قرآن کریم کے بعد سیرت اور احادیث کا مطالعہ سب سے زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ امام زین العابدین کا قول یہ ہے ’’ہم اس طرح سیرت پڑھا کرتے جس طرح قرآن پڑھا جاتا ہے۔‘‘ سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے سوال کیا گیا کہ رسول اکرمؐ کے اخلاق کیا تھے، آپؓ کا جواب یہ تھا ’’کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟‘‘۔ عمران خان کے بعض سیاسی مخالفین نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ شرک کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک بزرج مہرنے جو طالبان کا پرجوش حامی ہے ، یہ سوال کیا کہ اس شرک کے بعد پھر سے وہ کلمہ پڑھے تو کیا اسے مسلمان تسلیم کیا جائے گا یا نہیں؟ اس معلّم اخلاق کو میاں شہباز شریف پر کبھی اعتراض نہیں ہوا جو داتا دربار کو غسل دینے جایا کرتے ہیں۔

فرض کیجئے عمران خان غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں تو بھی شرک کا کیا سوال ؟ سنجیدہ علما تو اسے حرام بھی قرار نہیں دے رہے۔ یہ محض عقیدت میں غلو ہے اور خود خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ کی زندگی میں اس کا ارتکاب ہوا۔ عقیدت مند ماشکی نے بے تاب ہو کر آپ کے پائوں کو بوسہ دیا ، آپؒ بدمزہ ہوئے اور یہ کہا: ساری زندگی ان لوگوں کو سمجھاتا آیا ہوں مگر باز نہیں آتے۔ سقے نے تن کر کہا: خواجہ! آپ کے ہاتھ پائوں میں کیا رکھا ہے ؟ ہم تو اس لیے آپ سے محبت کرتے ہیں کہ آپ کو اللہ سے محبت ہے۔ اس پر عظیم صوفی اور عظیم صوفی شاعر نے خاموشی اختیار کی صدیوں سے پنجابی شاعری جن کے نقوش قدم پہ چلتی چلی آئی ہے ۔ چونکا دینے والے اس واقعے کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے ؟ پاکستان میں مزارات سے عقیدت رکھنے والے مکتبِ فکر کا تناسب 70 فیصد سے کم نہیں۔ ظاہر ہے کہ نا صرف وہ اسے پسند کریں گے بلکہ شاید زیادہ جوش و خروش سے بروئے کار آئیں۔ ابھی سے اس کے آثار واضح ہیں۔ جہاں تک نیت کا تعلق ہے تو وہ جانتا ہے یا اس کا خدا۔ شریعت کے باب میں احتیاط لازم ہے ۔ اس لئے کہ شریعت وہ کم از کم زاد راہ ہے ایک مسلمان جس کا قائل ہوتا ہے، تاہم نیت کا تعین مخلوق نہیں’ صرف وہی کر سکتا ہے ‘ جس نے انسانوں کو پیدا کیا…اور جو دلوں کے راز جانتا ہے۔