لاہور(دنیا نیوز) دنیا ٹی وی کے پروگرام ہیڈلائنز کے حالیہ سروے ، نئی حلقہ بندیوں کے تحت ہونے والی ردوبدل، 2013 کے عام انتخابات اور 2015 کے بلدیاتی انتخابات کے اعداد و شمار کی بنیاد پر دنیا الیکشن سیل کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق ضلع مظفر گڑھ کے قومی حلقہ این اے 182 اور 184میں اب تک کی صورتحال کے مطابق جمشید دستی دونوں حلقوں میں مقبول نظر آرہے ہیں ۔
آزاد الیکشن جیتنے والی معروف شخصیت جمشید دستی کو اپنے ہی پینل سے منتخب ہونے والے سابقہ ایم پی ایز کے مدِمقابل آنے کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جمشید دستی مظفر گڑھ کے قومی اسمبلی کے 4 حلقوں این اے 181، 182، 184، 186 اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پی پی 276 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
جمشید دستی 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پہلی بار ایم این اے منتخب ہوئے۔ 2010 میں جعلی ڈگری کیس میں نااہل ہونے کے بعد ضمنی الیکشن میں ایک بہت ہی سخت مقابلے کے بعد دوبارہ اپنی نشست پر کامیابی حاصل کی ۔ 2013 کے الیکشن میں جمشید دستی نے این اے 178 اور177 میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور این اے 178 موجودہ 182 میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار سردار محمد آباد ڈوگر کو 16ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔ این اے 177 موجودہ این اے 183 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ وزیرِ خارجہ محترمہ حنا ربانی کھرکی آبائی نشست پر ان کے والد ملک نور ربانی کھر کے خلاف الیکشن لڑا اور انہیں 53ہزار سے زائد ووٹوں کے بڑے مارجن سے شکست دی۔
جمشید دستی اس نشست کو ضمنی الیکشن میں اپنے بھائی جاوید احمد دستی کو امیدوار بنانے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ملک نور ربانی کھر سے 9098 ووٹوں سے ہار گئے۔ آئندہ الیکشن 2018 کیلئے این اے 184 میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس سابق ایم این اے سید باسط سلطان بخاری جیسا مضبوط امیدوار ہے جو کہ جمشید دستی کو ہرانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پاکستان مسلم لیگ ن نے این اے 184میں سابق صوبائی وزیر سید ہارون سلطان بخاری کو ٹکٹ دیا ہے جو ایک مضبوط امیدوار ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس حلقے میں سابق ایم این اے نوابزادہ افتخار احمد خان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔
ان تینوں سے جمشید دستی کا سخت مقابلہ ہوگا۔ این اے 182 جو کہ جمشید دستی کا آبائی حلقہ ہے اس میں جمشید دستی کو ہرانے کیلئے پاکستان مسلم لیگ نوازاور پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے مضبوط امیدوار میدان میں اتارے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے سابق ایم پی اے مہر ارشاداحمد سیال این اے 182 کا امیدوار ہے جو کہ2008 میں جمشید دستی کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے پینل پر ایم پی اے منتخب ہوئے جن کا اس حلقہ میں سیاسی اثرورسوخ بہت زیادہ ہے اور جمشید دستی کو ہرانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور اسی حلقہ میں سابق ایم این اے انجینئر شاہد جمیل کے بھائی ساجد نعیم قریشی ، محترمہ تہمینہ دستی اور مس مہناز سعید پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ کی دوڑمیں ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ ن سے مضبوط امیدوار ملک قاسم ہنجرا این اے 182 سے جمشیدکا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ٹیم ہیڈلائنز کے حالیہ سروے ، نئی حلقہ بندیوں کے تحت ہونے والی ردوبدل اور 2013 کے عام انتخابات کے اعداد و شمار کی بنیاد پر دنیا الیکشن سیل کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق جمشید دستی این اے 182اور این اے 184 میں مقبول نظر آرہے ہیں۔
61 فیصد لوگوں کی رائے میں جمشید دستی آئندہ بھی یہاں سے ایم این اے منتخب ہوں گے جبکہ صرف 31 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ جمشید دستی کی جیت ممکن نہیں ہے۔ ان کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ جمشید دستی ایک غریب رہنما ہے اور ان تک ہر خاص و عام کی رسائی ہے۔ ان کے نا جیتنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے علاقے میں ترقیاتی کام نا ہونے کے برابر کروائے ہیں اور لوگوں کی امیدوں پر پورا نہیں اتر پائے۔ پاکستان تحریک انصاف بھی ان کے مقابلے میں اپنا امیدوار سامنے لا رہی ہے جو کہ ان کیلئے کسی دھچکے سے کم نہیں کیونکہ جمشید دستی چاہتے تھے کہ تحریک انصاف ان کے مقابلے میں اپنا امیدوارنہ لائے اور ان حلقوں میں اس کے ساتھ الحاق کیا جائے ۔
2013 کے الیکشن میں جمشید دستی گروپ سے کامیاب ہونے والا ایم پی اے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر چکاہے جس کے پرانے حلقہ کی کچھ یونین کونسلز اب این اے 182 کا حصہ ہیں جو کہ جمشید دستی کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جمشید دستی آئندہ الیکشن میں اپنی جیت کی روایت کو برقرار رکھ پاتے ہیں کہ نہیں۔