لاہور: ( روزنامہ دنیا) شہباز شریف کی نیب میں پیشی کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ معتبر ذرائع کے مطابق شہباز شریف سے صاف پانی کیس سے متعلق 21 جبکہ پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی سے متعلق 11 سوالات کئے گئے۔ نیب کی جانب سے سخت سوالات پر میاں صاحب دو بار لال پیلے ہوئے، پسینہ صاف کیا اور بعد میں معذرت کر لی۔
نیب افسر نے سوال کیا کہ صاف پانی پراجیکٹ میں آپ کے داماد کی مداخلت آپ کو معلوم تھی ؟ جس پر سابق وزیراعلیٰ خاموش رہے، نیب افسر نے دوسری بار اسی سوال میں داماد کے بجائے علی عمران یوسف کا نام لیا تو شہباز شریف نے انتہائی پریشانی کی حالت میں کہا کہ بطور وزیراعلیٰ کون کس میں مداخلت کر رہا تھا میں نہیں جانتا۔ نیب افسر نے استفسار کیا کہ آپ کے داماد کی مد اخلت تو آپ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ؟ اس سوال پر شہباز شریف شدید پریشان ہوئے اور پھر توقف کے بعد کہا کہ کس افسر نے میرے کسی رشتہ دار کو پراجیکٹ میں شامل کیا میں نہیں جانتا۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف سے نیب کی تحقیقاتی ٹیم نے تین بار سخت لہجے میں سوال کیا جس پر شہباز شریف نے بھی سخت لہجے میں ہی جواب دیا اور کہا کہ کرپشن کرنیوالوں کو بلایا جائے، میں بطور وزیراعلیٰ اجلاسوں کی صدارت کرتا رہا۔ شہبازشریف بعض سوالات کے جوابات پر کہتے رہے کہ یہ متعلقہ بورڈ آف ڈائریکٹرز سے پوچھا جائے۔
آپ نے مہنگے داموں صاف پانی پلانٹ کے ٹھیکوں کی منظوری دی کے سوال پر شہباز شریف نے کہا ہم نے مختلف منصوبوں میں عوام کے اربوں روپے بچائے، ہر منصوبے میں شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا، پھر فیصلے کئے، شہباز شریف نے نیب کو وضاحت دی کہ صاف پانی کمپنی میں کرپشن کی نشاندہی پر پنجاب حکومت نے خود تحقیقات کا آغاز کیا، ہم نے خود ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی، میں نے ایک روپے کی بھی کرپشن نہیں کی، تمام ٹھیکے میرٹ کی بنیاد پر دئیے۔ نیب نے سوال کیا کہ بغیر فزیبلٹی رپورٹ کے کیسے صاف پانی کمپنی بنادی گئی، شہبازشریف نے جواب دیا کہ محکمہ ترقیاتی و منصوبہ بندی نے کمپنی بنانے کی تجویز دی تھی، نیب نے سوال کیا کہ آپ نے بطور وزیراعلیٰ کئی صاف پانی کمپنی کے اجلاسوں کی صدارت کی، لیکن ٹھیکے مہنگے دئیے، جس پر شہبازشریف نے جواب دیا کہ میں نے 70 ارب روپے کی کرپشن پکڑی ہے، اگر اجلاس میں جائزہ نہ لیتا تو نقصان ہونا تھا، نیب نے سوال کیا کہ پنجاب صاف پانی کمپنی میں صرف ایک ہی کنٹریکٹ کو منظور کیا، ایسا کیوں ؟ جس پر شہبازشریف نے جواب دیا کہ اس کے لئے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے معاملات کی منظوری دی تھی۔
نیب کی ٹیم نے سوال کیا کہ آپ نے تین ارب روپے ایک کنسلٹنسی فرم کو دئیے، مگر نتائج صفر رہے جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ تکنیکی ٹیم نے جو سفارشات دیں انکی بنیاد پر بہترین کمپنی کو کنسلٹنسی دی گئی۔ نیب نے سوال کیا کہ الزام یہ بھی ہے کہ جو پلانٹ 50 کروڑ کے لگنے تھے وہ ڈیڑھ ارب کے لگانے کی منظوری دی گئی جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ ماہرین کی ٹیم نے جو تخمینہ لگایا اسکی بنیاد پر پلانٹ لگانے کی منظوری دی۔ نیب نے سوال کیا کہ اطلاعات ہیں کہ آپ کے بورڈ کی میٹنگز دبئی میں ہوتی رہیں جہاں من پسند افراد کو نوازا گیا، جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ تمام بھرتیاں قانون کے مطابق کی گئیں۔ نیب افسر نے سوال کیا کہ حمزہ شہباز نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں غیر قانونی طور پر شرکت کی اور فیصلوں پر اثر انداز ہوئے، کیا آپ آگاہ تھے ؟ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ حمزہ شہباز سیاسی ورکر ہیں اور عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کیلئے انہوں نے کمپنی افسروں کی رہنمائی کی۔
نیب نے سوال کیا کہ پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی میں بھی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھرتیاں کی گئیں اور مہنگے ٹھیکے دئیے گئے، جس پر شہبازشریف نے جواب دیا کہ ہم نے پنجاب میں لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لئے جدید پلانٹ لگائے۔ نیب نے سوال کیا کہ سید فرخ حسین شاہ کا آپ سے کیا تعلق ہے ، ان کی ممبر نیپرا پنجاب اور پاور کمپنی میں بطور سی ای او تعیناتی میں آپ کا کیا کردار ہے ، اس پر بھی شہبازشریف نے میرٹ پر بھرتیاں کرنے کا جواب دیا۔ شہباز شریف سے صاف پانی کمپنی کو نارتھ اور ساؤتھ میں تقسیم کرنے، آر او اور یو ایف پلانٹس پر سولر پینل لگانے کے لئے 8 پی 2 کمپنی کو ٹھیکہ دینے، صرف غیر ملکی کمپنیوں کے نیلامی میں حصہ لینے سے متعلق بھی سوالات کئے گئے۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیراعلیٰ سے نیب کے چار تفتیشی افسروں نے ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کے دفتر میں ان کے سامنے سوالات کئے۔ شہباز شریف کو سادہ پانی، چائے ، قہوہ اور بسکٹ پیش کئے گئے لیکن سابق وزیراعلیٰ کا حسن انتخاب قہوہ اور بسکٹ ٹھہرے۔ شہباز شریف کو صاف پانی سے متعلقہ میٹنگ منٹس کی دستاویزات دکھائی گئیں۔ ان میں جو فقرے ان کے حق میں جاتے تھے انہیں وہ با آواز بلند پڑھتے اور اپنے خلاف جانے والے جملوں کو مدھم آواز میں پڑھتے۔
علاوہ ازیں پیراگون ہائوسنگ سکینڈل میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق نیب کی جانب سے نجی بینک کی مغل پورہ برانچ میں سابق وزیر ریلوے سعد رفیق سے متعلقہ ایک اکائونٹ کا ریکارڈ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی مگر بینک نے مذکورہ ریکارڈ کو تبدیل کر کے نیب کو رپورٹ دی کہ اس نام کا کوئی اکائونٹ بینک میں موجود ہی نہیں۔ ذرائع کے مطابق نیب کے بینکاری کے معاملات کو سمجھنے والی ٹیم نے نجی بینک مغلپورہ کا دورہ کیا اور وہاں سے اکائونٹ کی مکمل تفصیل حاصل کر لی۔ ذرائع کا ماننا ہے کہ یہ بینک اکائونٹ پیراگون کیس کے بریک تھرو میں اہم پیش رفت ثابت ہو گا۔ الیکشن سے پہلے خواجہ سعد رفیق کو پیراگون ہائوسنگ سکینڈل کیس میں دوبارہ طلب کئے جانے کا امکان ہے۔