نیب کا احسن فیصلہ: رضاکارانہ یا کسی دباؤ کا شکار؟

Last Updated On 05 July,2018 09:32 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی ) نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے انتخابات میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار جس کے خلاف نیب کی تحقیقات جاری ہیں کو 25 جولائی تک گرفتار نہ کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں اور اس کے تحت خواجہ آصف، رانا افضل، رانا مشہود کے خلاف تحقیقاتی عمل روک دیا ہے۔ چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ ہماری پہلی اور آخری وابستگی پاکستان اور عوام کے ساتھ ہے لہٰذا کسی کے خلاف انتقامی کارروائی پر یقین نہیں رکھتے اور مذکورہ اقدام اور اعلان کا تعلق بھی سیاست اور الیکشن سے نہیں۔

موجودہ صورتحال میں جب ملک میں انتخابات کیلئے غیر جانبدارانہ فضا کی ضرورت ہے ایسے میں نیب کے اس اقدام اور اعلان کو بہتر فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے تا کہ نیب کے حوالے سے یہ تاثر قائم نہ ہو کہ کسی جماعت کے خلاف یکطرفہ احتسابی عمل جاری ہے اور انہیں ٹارگٹ کرنے کا عمل انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبدارانہ حیثیت کو متاثر کرے گا لہٰذا دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ہر کرپٹ کے خلاف کارروائی کیلئے پر عزم نیب کو ان احکامات کی ضرورت کیوں پڑی ؟ آخر وہ کونسا دباؤ ہے جس پر نیب کو دفاعی پوزیشن پر جانا پڑا ؟ نیب کے اس اقدام سے عام انتخابات کے حوالے سے جو جانبدارانہ تاثر تھا اسے ختم کرنے میں مدد ملے گی ؟ کرپشن کے خلاف پاکستان میں کبھی بھی احتسابی عمل غیر جانبدارانہ اور بہتر ساکھ کا حامل نہیں رہا، خصوصاً نیب اپنے قیام کے بعد سے اب تک ہمیشہ حکمران طبقات کا ایک ایسا ہتھیار رہا ہے جسے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور جھکانے کا کام لیا جاتا رہا ہے۔

گزشتہ پانچ سال میں کرپشن کے خلاف نیب کی مہم کا جائزہ لیا جائے تو آصف علی زرداری کے گزشتہ دور حکومت پر اس نے مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ کراچی آپریشن کے موقع پر آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ کے وقت سندھ میں اس کا بھرپور کردار نظر آتا ہے اور جب ہم نے دیکھا کہ ایک طرف رینجرز اپنی کارروائیوں میں مصروف تھے دوسری طرف وہی رینجرز اہلکار نیب کے اہلکاروں کے ساتھ ملکر سندھ میں کرپشن کے خلاف سرگرم عمل ہو گئے۔ تب پیپلز پارٹی چیختی چلاتی رہی اور میڈیا کے محاذ پر دہائیاں دیتی نظر آئی کہ کیا کرپشن صرف سندھ کا مسئلہ ہے اور تب اس وقت کی نواز شریف حکومت نے اس پر خاموشی اختیار کئے رکھی چونکہ وفاق اور پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان معاملات بہتر انداز میں چل رہے تھے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کے ناک میں دم کر رکھا تھا، کبھی آصف زرداری کا نام ایان علی کے جرائم کے ساتھ لیا جاتا کبھی ڈاکٹر عاصم کی لوٹ مار کا ذکر کر کے پیپلز پارٹی کو آئینہ دکھایا جاتا تھا مگر جب وفاق نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی تو پھر آصف زرداری اور طاقتور حلقوں میں بظاہر ‘‘سیز فائر’’ ہو گیا۔ یکا یک زرداری دبئی سے ملک واپس آ گئے اور سندھ میں کرپشن کے خلاف نیب اور ایف آئی اے کے قدم رک گئے۔

اب چونکہ ایک متضاد اور برعکس صورتحال در پیش ہے پنجاب میں گورننس اور انفراسٹرکچر کے اندر خامیاں اور عیب ڈھونڈنے کا حکم جاری ہو چکا ہے اور وہی سندھ والی صورتحال پنجاب خصوصاً لاہور میں در پیش ہے۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں کرپشن کے خلاف نیب اور ملک کے اداروں کی ساکھ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے اسے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی خوب اچھال رہے ہیں۔ جہاں تک نیب کے اس اقدام کا تعلق ہے تو یقیناً اس حوالے سے بہت دباؤ تھا کیونکہ ن لیگ یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے اور اب بیرون ملک میڈیا بھی اس صورتحال کو نواز شریف مخالف اقدامات کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیب کے نئے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی تعیناتی کے بعد نیب ایک نہایت بدلا ہوا ادارہ محسوس ہوا۔ قوم نے سکھ کا سانس لیا کہ شاید قومی خزانے کے محافظ کرپشن اور بددیانتی کے راستے میں بند باندھنے کا عہد کیے ہوئے ہیں مگر یکا یک ایسا حکمنامہ نیب نے جاری کیا جس سے نیب اور چیئر مین کی ساکھ خاک میں مل گئی اور وہ تھا نواز شریف کے خلاف انڈیا بھیجی جانے والی رقوم پر تحقیقات کا اعلان۔ جس پر نواز شریف نے براہ راست رد عمل دیا اور پھر نیب اس دن کے بعد دفاعی محاذ پر واپس لوٹ آیا ہے۔ یہ نیب کی کرپشن کے حوالے سے ایک بد قسمتی تھی جس پر قومی سطح پر رد عمل بھی آیا۔ اب نیب نے اچھا کیا کہ اپنی ساکھ کی بحالی اور ملک میں جاری جمہوری عمل کے تسلسل کیلئے 25 جولائی کی جو فضا اور خصوصاً نیب کے کسی بھی جماعت کے خلاف مبینہ کارروائیوں کے عمل کے حوالے سے رد عمل کا سلسلہ تھا وہ کسی حد تک رک سکے گا۔

جہاں تک اس پر تحریک انصاف کے ترجمان کے رد عمل کا سوال ہے جن کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ فوجداری قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ قانون کی نظر میں کسی کی گرفتاری مطلوب ہے تو انکار کیوں۔ ترجمان کا رد عمل اور ان کی جانب سے پریشانی کا اظہار یہ ظاہر کر رہا ہے کہ جیسے انہیں اس عمل کا فائدہ پہنچ رہا تھا ویسے بھی دیکھا جائے تو خود تحریک انصاف کے اندر نامی گرامی لوگوں کی کمی نہیں جن کے خلاف نیب کی تحقیقات اور مقدمات کا سلسلہ جاری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کسی کی گرفتاری خود ترجمان صاحب کو مطلوب ہو۔ انہیں اس میں سے کوئی فائدہ نظر آ رہا ہو۔ البتہ بوجوہ ان پر ہاتھ ہلکا رکھنے کے باعث ہی دیگر جماعتوں کی جانب سے رد عمل آ رہا تھا۔ نیب کی جانب سے جاری ہونے والے اعلان کا تعلق کسی ایک جماعت کے ملزم امیدواروں سے نہیں ساری جماعتوں سے ہے اور پاکستان کی سیاسی بد قسمتی یہ ہے کہ ملک کی تمام اہم جماعتوں کے اندر ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو قومی سرمایہ لوٹنے اور بدعنوانیوں ، بے ضابطگیوں کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور نیب سمیت مختلف اداروں کے پاس ان کے خلاف شواہد موجود ہیں۔