کراچی: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پی آئی اے ایئر سفاری کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے سی ای او پی آئی اے کی سفاری فلائٹ کی تاخیر اور مسافروں کو مشکلات سے متعلق رپورٹ مسترد کر دی اور سی ای او مشرف رسول کی تقرری سے متعلق نیب کو تحقیقات کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نےسی ای او پی آئی اے سے استفسار کیا کہ بتائیں ائیر سفاری پر کون کون گیا۔ اجازت کس نے دی؟ سی ای او پی آئی اے نے سفاری فلائٹ کی تاخیر اور مسافروں کو مشکلات سے متعلق رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ اسلام آباد سے اسکردو کی فلائٹ میں 112 مسافر تھے۔ فلائٹ میں 42 مہمان تھے جس میں 17 کارپوریٹ سربراہ شامل تھے۔ مہمانوں میں 6 ٹریول ایجنٹ اور 17 میڈیا پرسنزتھے۔ تمام مہمانوں کےاخراجات پی آئی اے نے برداشت کئے۔ عدالت نے رپورٹ مسترد کر دی۔
سی ای او پی آئی اے نے کہا ہمیں کام کرنے دیا جائے۔ کمرشل سرگرمیوں کیلئے پروموشن ضروری ہوتی ہے۔ سی ای او کے بیان پر چیف جسٹس برہم ہو گئے۔ کہا آپ کتنی تنخواہ لیتے ہیں؟ سی ای او پی آئی نے کہا میری تنخوا 14 لاکھ روپے ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا ان کی تقرری کے لیے کابینہ کا اجلاس ہوا تھا؟ کیوں نہ ایسے افسر کو معطل کر کے دوسرے کو تعینات کر دیں؟ چیف جسٹس نے کہا ہماری وجہ سے کون سا کام رکا ہوا ہے؟ سی ای او پی آئی اے نے کہا ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، ہم کوئی غلط کام نہیں کر رہے۔
چیف جسٹس نے کہا سفارش پر بھرتی ہو کر ایسے کام کرتے ہیں۔ ان کا معاملہ بھی نیب کو بھجوا رہے ہیں۔ عدالت نے سی ای او مشرف رسول کی تقرری سے متعلق نیب کو تحقیقات کا حکم دے دیا۔
سی ای او پی آئی اے کو تین دن میں سفاری فلائٹ میں اسلام آباد سے اسکردو میں سوار 42 مہمانوں کو کرایہ اور دیگر اخراجات ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا آپ نے اسلام آباد سے اسکردو کے کرائے اتنے کیوں بڑھا رکھے ہیں، گلگت بلتستان کے عوام رو رہے ہیں۔ اتنے مہنگے کرایوں پر سیاحت متاثر ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے پی آئی اے جہاز پر مارخور کے نشان پر برہمی کا اظہار کیا۔ کہا کل اسلام آباد سے کراچی آتے ہوئے بھی مارخور کا نشان دیکھا۔ عدالت نے مارخور کی تصویر پر سی ای او کو توہین عدالت کے بھی نوٹس جاری کردیے۔