لاہور: (روزنامہ دنیا ) حالیہ عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما یہ الزام لگاتے ہیں، کہ اس انتخابات میں سب سے زیادہ دھاندلی ان کے ساتھ ہوئی ہے اور ان کے مینڈیٹ پر بقول ان کے ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ اسلام آبا د میں احتجاج سے پہلے یہ کہا جاتا رہا کہ یہ احتجاج مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی سربراہی میں ہوگا۔ تاہم احتجاج شروع ہوتے ہی سب سے زیادہ احتجاج میں شریک مظاہرین مرد اور خواتین شہباز شریف کی غیرحاضری پر سوالات اُٹھاتے ہوئے دکھائی دیے۔
ایک بوڑھے آدمی نے پوچھا ‘شہبازشریف مجھے نظر نہیں آرہے ’۔ کسی نے جواب دیا ان کی پرواز موسم کی خرابی کی وجہ سے نہیں آ سکی۔ بوڑھے آدمی نے بے تکلف کہا، ‘جس کے گھر سے چوری ہوئی ہے، وہ آئے ہی نہیں’۔تاہم آخر تک صحافیوں سے لے کر سیاستدانوں تک ہر آنکھ ان کو ڈھونڈتی رہی۔ بعض کے خیال میں وہ شاید اس لیے بھی نہیں آئے کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات فی الحال کشیدہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ ہی ہیں کہ جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جب نواز شریف کسی مشکل میں پھنس جاتے تو وہ اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ‘خفیہ’ ملاقاتیں کر کے بلائیں ٹالا کرتے تھے۔
ایک دوسری بڑی شخصیت جو اس میدان احتجاج میں دکھائی نہیں دی وہ تھی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری۔ وہ عام انتخابات کے بعد سے پہلے ہی دن سے دیگر احتجاجی جماعتوں کے ساتھ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی عجیب سے اشارے دے رہے ہیں۔ کبھی ان کے اجلاس میں شریک ہوتے رہے ہیں اور کبھی نہیں۔ اس مرتبہ بھی خود تو نہیں آئے لیکن سینیٹر شیری رحمان، خورشید شاہ، قمرالزماں کائرہ اور یوسف رضا گیلانی کو اپنی نمائندگی کے لیے ضرور بھیج دیا۔ سیاست کے طالب علم بلاول کے لیے اچھا ہوتا کہ وہ اس قسم کے سیاسی احتجاج میں حصہ لینے کی ڈگری بھی حاصل کر لیتے۔ آج تک انھوں نے محض پیپلز پارٹی کے اپنے جلسوں میں بھی حصہ لیا ہے۔