شہباز شریف موثر اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کر سکیں گے؟

Last Updated On 10 August,2018 12:08 pm

لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کا یہ کہنا کہ نہ تو کوئی این آر او دینا چاہتا ہے اور نہ ہی کوئی لینا چاہتا ہے، ملک میں انتشار کی سیاست نہیں چاہتے اور ان کے انتخابات کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن کی تشکیل کے مطالبے سے بڑا سوال یہ سامنے آ رہا ہے کہ کیا وہ اپوزیشن کا مشکل اور کٹھن کردار ادا کر سکیں گے اور مسلم لیگ ن کی سیاست کا مستقبل کیا ہو گا۔

جہاں تک این آر او دینے یا لینے کی بات ہے تو نہ تو ملکی حالات میں ایسے امکانات نظر آتے ہیں اور نہ ہی این آر او کی تاریخ کوئی اچھی تاریخ ہے کیونکہ این آر اوز کی وجہ سے ہی ملک کے اندر کرپشن، لوٹ مار اور جرائم نے پرورش پائی۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل مشرف کے دور میں ہونے والے این آر او کو عدالت عظمیٰ کے فل بینچ نے کالا قانون قرار دیتے ہوئے منسوخ کیا اور آج کی عدلیہ کا کردار بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایسے کسی رجحان کو پنپنے نہیں دے گی۔

شہباز شریف کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پنجاب کے ایک متحرک فعال وزیراعلیٰ رہے ہیں ان کی حکومتی کارکردگی کی بنا پر ہی پنجاب نے شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کی تائید و حمایت کی ہے۔ لیکن اپوزیشن لیڈر کے طور پر جس کردار کی ضرورت ہو گی وہ شاید شہباز شریف ادا نہ کر سکیں۔ کیونکہ ان کے خاندان کو جس طرح کے حالات کا سامنا ہے اس میں وہ ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکیں گے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز سب کچھ جانتے ہوئے بھی لندن سے اڈیالہ جیل پہنچ گئے لیکن شہباز شریف ایئر پورٹ نہ پہنچ سکے اس کے بعد جس اجلاس میں الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کا فیصلہ ہوا اس میں شہباز شریف موجود تھے لیکن وہ اس احتجاج کا حصہ نہ بن سکے اور انہوں نے اسلام آباد نہ پہنچنے کی وجہ موسم کی خرابی بتائی۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی سے چہ مگوئیاں شروع ہو چکی ہیں کہ شہباز شریف اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کر پائیں گے ؟ کیونکہ ماضی میں بھی پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر وہ زیادہ دیر یہ کردار ادا نہ کر پائے تھے اور انہوں نے باہر کیلئے رخت سفر باندھ لیا تھا۔

کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کا آنے والے وقت میں کٹھن اور مشکل کردار شہباز شریف کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا، اگر وہ مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو ان کا سیاسی مستقبل تابناک ہو گا اور اگر مصلحتوں میں پڑ جاتے ہیں تو اس کا نتیجہ صرف ان کیلئے ہی نہیں ان کی جماعت کیلئے بھی اچھا نہیں ہو گا اور جیل میں بند نواز شریف کیلئے بھی مشکلات میں کمی نہ آ سکے گی۔

مسلم لیگ ن کے مستقبل کا انحصار بھی سب سے بڑھ کر شہباز شریف کے انداز سیاست پر ہے۔ سیاست کو مصلحت کی سطح پر لے جانے سے حالات ان کے مزید خلاف ہو جائینگے۔ اب تک تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ان کی جماعت متحد رہی ہے مگر اب جب شہباز شریف اقتدار کے ایوان میں کوئی جگہ بھی نہیں بنا پائے تو کورٹ کچہری اور تھانہ کی سیاست کرنے والے روایتی سیاستدانوں کیلئے اس شہباز شریف کے ساتھ چلنا مشکل ہو گا جو اس آزمائش کے وقت میں بھی قدم آگے بڑھا کر جارحانہ سیاست نہیں کر رہے۔

شہباز شریف کا اپوزیشن میں متحرک ہونا اور قومی ایشوز پر کڑی سیاست کرنا ہی ان کی جماعت، ان کے خاندان اور سب سے بڑھ کر جیل میں قید نواز شریف کیلئے خیر کی خبر ہو گی۔ وگرنہ انداز سیاست یہی رہا کہ اپوزیشن الیکشن کمیشن کے باہر جمع ہو اور شہباز شریف کا پتہ معلوم نہ ہو تو پھر پنجاب سے ن لیگ کے سیاسی سورج کا غروب ہونا مقدر ہو جائیگا۔ ان کے سیاسی مخالف تو پنجاب کو پانی پت کا میدان مان رہے ہیں جبکہ شہباز شریف اس وقت عملاً غیر فعال ہیں اور پنجاب میں بظاہر اقتدار کے امکانات کو بھی کسی ناقابل فہم حکمت عملی کے تحت گنوا بیٹھے ہیں۔ اس بارے میں ان کی دلیل ہے کہ وہ منہ کالا نہیں کرنا چاہتے۔

البتہ شہباز شریف کا ایک مطالبہ انتہائی صائب اور مناسب ہے، وہ ہے قومی اسمبلی کا پارلیمانی کمیشن جو تمام فریقین کو سیاسی فیس سیونگ مہیا کرے گا کیونکہ ماضی میں یہی کام دھاندلی الزامات پر جوڈیشل کمیشن نے کیا تھا۔ دھاندلی کے الزامات بھی درست قرار دئیے تھے اور ملک کا نظام بھی چلنے دیا گیا تھا۔ شہباز شریف کی اپوزیشن ایوان کے اندر حکومت کو دن میں تارے دکھا سکتی ہے مگر شرط صرف اتنی ہے کہ شہباز شریف ثابت قدم رہیں اور خود کو یقین دلائیں کہ اب وہ ماضی کے حکمران نہیں بلکہ سیاسی آزمائش سے دو چار اپوزیشن کے رہنما ہیں۔