کراچی: (دنیا نیوز) سندھ میں پیپلزپارٹی کی ہیٹ ٹرک ہوگئی، پیپلزپارٹی کے مراد علی شاہ سندھ اسمبلی کے 29 ویں قائد ایوان بن گئے، مراد علی شاہ نے اپوزیشن کے امیدوار شہریار مہر کو شکست دی، نو منتخب وزیراعلیٰ سندھ کل اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
سندھ اسمبلی میں حکومت سازی کا عمل حتمی مرحلے میں داخل ہو گیا، اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر آغا سراج درانی نے رائے شماری کا عمل شروع کیا، اوپن بیلٹنگ کے ذریعے قائد ایوان کا انتخاب کیا گیا۔ جیالے امیدوار مراد علی شاہ نے 97 ووٹ حاصل کئے جبکہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار شہریار مہر 61 ووٹ لے سکے۔ سپیکر نے نتائج کا اعلان کیا۔ ایوان میں کل 158 اراکین نے ووٹ دیئے، چار اجلاس سے غیر حاضر رہے جبکہ ٹی ایل پی کے تین ارکان نے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔ پی ٹی آئی کے فردوس شمیم نقوی نے مراد علی شاہ کو مبارکباد تو دی لیکن وزیراعلی کی جگہ وزیراعظم کہہ گئے۔
نو منتخب وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے اسمبلی میں پہلا خطاب کرتے ہوئے کہا چھوٹے صوبوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا، لوگ بہت تبدیلی کی بات کرتے ہیں لیکن تاریخ بھول جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا آمریت کے دور میں پاکستان ہمیشہ مشکلات کاشکار رہا، 71 میں لوگوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا اور آدھا ملک گنوا دیا، وہ دور یاد ہے جب لوگوں کی زبان بند کر دی جاتی تھی۔
مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ جب بینظیر بھٹو ہم سے جدا کر دی گئیں تو بھی ملک بہت مشکل میں تھا، آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ملک کو آگے بڑھایا۔ نومنتخب وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا جب ہم نےحکومت نہیں بنائی تب بھی سب سے زیادہ ووٹ پیپلزپارٹی کو ہی ملے، سندھ کے عوام نے ہر بار پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا، اس بار پیپلزپارٹی کے ووٹ میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔
نومنتخب وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا 2013 میں 32 لاکھ ووٹ لیے تھے اور اب 39 لاکھ ووٹ لیے، اس ایوان میں ہماری دو تہائی اکثریت ہونی تھی جو چھینی گئی، پیپلزپارٹی نے گزشتہ 10 سال سندھ کے عوام کی خدمت کی، ہمیں حصے کا پورا پانی نہیں دیا جا رہا۔
خیال رہے جامشورو سے تعلق رکھنے والے والے مراد علی شاہ کو سیاست وراثت میں ملی اور اسمبلی کی رکنیت کے لیے انھیں زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ ان کے والد اور صوبے کے سابق وزیرِ اعلیٰ عبداللہ شاہ جس نشست سے منتخب ہوئے تھے بعد میں مراد علی شاہ وہیں سے دو بار انتخابات میں کامیاب قرار دیے گئے۔
ارباب غلام رحیم کے دور حکومت میں مراد علی شاہ بطور اپوزیشن پارلیمینٹیرین کافی سرگرم رہے۔ اسمبلی قوانین و ضوابط پر عبور کی وجہ سے وہ سینیئر پارلیمینٹیرین اسپیکر مظفر شاہ کو بھی پریشان کر دیتے تھے اور اس وقت حکومت اور موجودہ اپوزیشن میں شامل ایم کیو ایم کے اراکین سے بھی ان کی نوک جھونک چلتی آئی ہے۔
این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے مراد شاہ امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی سے بھی سول سٹرکچرل انجینئرنگ اور اکنامک انجینئرنگ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ حصولِ تعلیم کے بعد انھوں نے اپنے کریئر کی ابتدا واپڈا میں بطور جونیئر انجنیئر کی اور پھر پورٹ قاسم اتھارٹی، حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی ہاربر پر بھی مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
وہ وزیرِ اعلیٰ نامزد ہونے سے قبل صوبائی وزیر خزانہ، وزیرِ توانائی اور وزیرِ آبپاشی بھی رہ چکے ہیں۔ 2010 میں سندھ میں جب سیلاب آیا تو اس وقت مراد علی شاہ ہی وزیر آبپاشی تھے اور انھیں ہٹا کر جام سیف اللہ دہاریجو کو یہ وزارت دی گئی تھی۔