لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ستمبر کے پہلے 10 روز کو اس حوالے سے اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے کہ ان 10 روز میں امریکہ، چین، ایران اور جاپان کے وزرائے خارجہ اور متعدد ممالک کے ذمہ داران پاکستان آ رہے ہیں۔ جہاں ان کی وزیراعظم عمران خان سمیت اعلیٰ سویلین، فوجی حکام اور خارجہ آفس کے ذمہ داران سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ اس امر میں شک نہیں کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان سے برتی جانے والی سرد مہری نے علاقائی صورتحال میں پاکستان کیلئے بہت سے امکانات پیدا کئے ہیں اور افغانستان سمیت علاقائی امور پر چین، روس اور ایران نے پاکستان کے ساتھ اس کے مؤقف پر ہم آہنگی ظاہر کی۔ لہٰذا اب پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد عالمی رہنماؤں کی نئی حکومت کیلئے جذبہ خیر سگالی کس حد تک پاکستان کیلئے فائدہ کا باعث بنے گا۔
کیا پاکستان کی نئی منتخب حکومت خارجہ محاذ پر فیصلوں کے حوالے سے مکمل آزاد ہو گی اور علاقائی صورتحال میں پاکستان کو اتنی اہمیت اور حیثیت ملے گی جس کا پاکستان مستحق ہے۔ پاکستان کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا اصل چیلنج معاشی ہے اور یہی اس حکومت کا اصل امتحان ہے اور پاکستان معاشی صورتحال میں بہتری لانے میں کامیاب رہا تو بیرونی محاذ پر بھی اس کے اچھے اثرات ہوں گے، پاکستان کی علاقائی اہمیت کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر اس کی بات سنی جائے گی، وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں ہی واضح کر دیا تھا کہ پاکستان امریکہ، چین، بھارت سمیت دیگرملکوں سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ لیکن بیرونی محاذ پر کامیابیوں کا عمل اندرونی سطح پر منتخب حکومت کی کارکردگی خصوصاً معاشی چیلنج سے نمٹنے اور اس کے نتائج پر منحصر ہو گا۔
وزیر خزانہ اسد عمر اعتراف کر چکے ہیں کہ معاشی بحران شدید ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے آئی ایم ایف سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی معاشی بحران کی سنگینی کی وجہ سے چین نے دو قسطوں میں 2 ارب ڈالرز ادا کئے۔ لیکن فوری طور پر اسکا ردِ عمل امریکہ کی طرف سے آیا اور امریکہ نے آئی ایم ایف کو تاکید کی کہ وہ پاکستان کو ممکنہ بیل آؤٹ پیکیج نہ دے، امریکہ ایک طرف پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے، تعلقات بڑھانے کا خواہش مند ہے تو دوسری جانب پاکستان پر دباؤ بڑھا کر اسے اپنے ایجنڈا پر کار بند رکھنا چاہتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب چین حسب روایت پاکستان کے ساتھ نہ صرف کھڑا ہے بلکہ پاکستان کی اقتصادی بحالی اور ترقی کیلئے ممکنہ اقدامات کرتا نظر آ رہا ہے۔ نئی عالمی حقیقتوں اور نئی عالمی صف بندیوں کی وجہ سے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت ہی پاکستان اور چین کے تعلقات نئی بلندیوں پر پہنچے ہیں اور اس خبر نے امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے اور وہ آئی ایم ایف پر دباؤ بڑھا کر پاکستان کے ہر معاملے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
لہٰذا دیکھنا ہوگا کہ ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان آنے والے عالمی رہنماؤں سے کن ایشوز پر بات ہوتی ہے اور کس کے ساتھ کیسے اور کہاں تک چلنا ہے، اس پر مشاورتی عمل پہلے سے ہی مکمل ہونا چاہئے اور خصوصاً امریکہ کے حوالے سے یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ چین، پاکستان اور روس کے مقابلے میں امریکہ، بھارت کی علاقائی بالادستی کا خواہاں ہے اور وہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں آگے نکلے یا اس کی اہمیت بڑھے، امریکہ کا ایک اور بڑا مسئلہ شکست کا وہ داغ ہے جو افغانستان کی 16 سالہ جنگ کے نتیجہ میں اس کے ماتھے پر لگ چکا ہے، امریکہ اپنی شکست کے اس داغ کو دھونا چاہتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ اس تاثر کو ختم نہیں کر سکتا۔ عالمی دنیا میں پاکستان کے کردار کو اجاگر کرنے میں اگر یہ حکومت کامیاب رہتی ہے تو یہ عمران خان کی حکومت کا بہت بڑا کریڈٹ ہوگا، جہاں تک ایران کی جانب سے نئی حکومت کیلئے جذبہ خیر سگالی اور ان کے وزیر خارجہ کے پاکستان کے دورہ کا سوال ہے تو یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جس کے ذریعہ ایران سے اپنے روابط کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے کیونکہ ایران بلاواسطہ اور پاکستان بالواسطہ طور پر امریکہ کا ٹارگٹ ہیں اور اس صورتحال میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط کرنے کیلئے باہمی تعلقات اور تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
ایران سعودی عرب تنازع میں بھی پاکستان نے کسی ایک کا ساتھ دینے کے بجائے، دونوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کیلئے کاوش کر کے یہ ثابت کیا تھا کہ سعودی عرب سے احترام اور جذبات کے تمام تر رشتوں کے باوجود ایران کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا نئی حکومت، نئے حالات اور نئے امکانات میں پاکستان کے حصہ میں کیا آتا ہے، یہ اہم سوال ہے اور عالمی دنیا سے اچھے، مؤثر تعلقات کیلئے اپنے مفادات کو مقدم رکھنا ہوگا۔ ہم کہیں مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہوں گے تو کوئی ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا۔ ان مواقع کا فائدہ اٹھانا نئی حکومت کیلئے امتحان ہے۔