لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے اقتصادی راہداری کے منصوبہ کو پاکستان کا معاشی مستقبل قرار دیتے ہوئے اس امر کا اعلان کہ اس کی سکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا پاکستان بھر میں قومی اطمینان کا باعث بنا ہے۔ یہ بات سپہ سالار نے چین کے سفیر سے ہونے والی ملاقات کے دوران کہی۔ جس میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سکیورٹی کے مسائل اور سی پیک کے مستقبل کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔ مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے سی پیک کی سکیورٹی کے حوالے سے بیان پاکستان کی اس کمٹمنٹ کا اظہار ہے جو چین اور پاکستان کے درمیان سی پیک کے تحت جاری منصوبوں پر کی گئی ہے۔ لہٰذا نئی پیدا شدہ صورتحال میں دیکھنا یہ ہو گا کہ چین کے وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان نے سی پیک کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ سی پیک کے تحت منصوبوں کی رفتار اور بڑھائی جائے جبکہ چین کا کہنا تھا کہ سی پیک کو پاکستان کی ترقی اور ضروریات کے مطابق آگے لیکر چلیں گے۔
نئی حکومت کی آمد کے بعد چینی وزیر خارجہ کے تین روزہ دورہ اسلام آباد کو نئی حکومت سے چین کے تعلقات اور سی پیک کی رفتار پر مزید اقدامات کے حوالہ سے اہم سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن چینی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے فوری بعد سی پیک پر معاہدے پر نظرثانی اور منصوبہ کے ایک سال کیلئے مؤخر کرنے کے عمل کے حوالے سے خبروں نے ایک نئی صورتحال طاری کی۔ اچھا ہوا کہ حکومت نے فوری طور پر اس کا نوٹس لیتے ہوئے جہاں سی پیک کے منصوبہ سے اپنی کمٹمنٹ کا اظہار کیا وہاں خود اس کی سکیورٹی کی ذمہ دار مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ کہنا کہ سکیورٹی پر کمپرومائز نہیں ہوگا یہ ظاہر کرتا ہے کہ چین سے تعلقات ، سی پیک کے معاہدوں کا تعلق حکومتوں سے نہیں خود ریاست پاکستان سے ہے اور کوئی بھی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔
البتہ یہ ضرور دیکھنا پڑے گا کہ کون اس حوالے سے کنفیوژن پیدا کر رہا ہے۔ اس کے مقاصد کیا ہیں اور کیا پاکستان کی موجودہ حکومت اس سپرٹ کے مطابق معاہدوں پر عمل پیرا ہوگی جیسے یہ معاہدے ہوئے۔ پاکستان اور چین کی ہر امتحان میں پوری طرح سرخرو ہونیوالی دوستی اور سٹریٹجک تعلقات پر مبنی رشتہ کے باوجود اس وقت معیشت کے میدان میں پائی جانیوالی کنفیوژن کے مقاصد کیا ہیں؟ بظاہر اس کا مقصد تو سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ پاکستان میں پوری قوم ایک وقت پر سی پیک منصوبوں پر مسرت کا اظہار کر رہی تھی اور اس میں حکومت اور اپوزیشن جماعتیں مِل کر سی پیک کو گیم چینجر کا لقب دیتی رہی ہیں۔
بہر حال بد قسمتی یہ رہی کہ ملک میں سیاست کا میدان انتہائی تقسیم کا منظر پیش کرنے لگا اور نواز شریف حکومت نے ہمیشہ سیاسی تناؤ اور امتحان سے نکلنے کیلئے سی پیک اور معاشی منصوبوں کا ضرورت سے زیادہ کریڈٹ لیا اور رد عمل کے طور پر اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے دبے لفظوں میں سی پیک کی شفافیت، منصوبوں کی تفصیلات کی پر اسراریت اور منصوبوں میں چینی کمپنیوں کے بڑھتے اثر و رسوخ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔ لہٰذا اب نئی حکومت کے آتے ساتھ ایسے عناصر نے ایک ماحول بنانا شروع کر دیا کہ نئی حکومت چین کے ساتھ اپنی معاشی شراکت داری پر نظر ثانی کرے گی۔ اصل حقیقت ایک اور بھی ہے کہ امریکہ اور انڈیا بھی پاکستان اور چائنہ کے بڑھتے معاشی کردار کو ایسے تحفظات اور خدشات کے ذریعے پاکستان کے اندر آواز اٹھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
اب چین کے وزیر خارجہ کے اہم ترین دورے کے وقت یہ بحث شروع کروائی گئی اور اہل وطن کے کچھ نادان عناصر بھی نادانستہ اس پراپیگنڈے کی زد میں آ گئے اور مائیک پومپیو کے دورے کے بعد چین کی دوستی اور وزیر خارجہ کے تین روزہ دورہ کا کریڈٹ لینے کی بجائے اسے تنازعات کی نذر کر بیٹھے۔ خود حکومت کے اندر بعض وزرا کے ذریعے چائنہ کے معاشی منصوبہ سازوں پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اچانک حکومت کے اہم ترین معاشی مشیر عبدالرزاق داؤد کا انٹرویو فنانشل ٹائمز کے ذریعے سامنے آیا۔ حیران کن طور پر ایسی ہی مشکوک باز گشت ’’زی نیوز‘‘ کے ذریعے ہندوستان سے بھی سنائی دی۔ بعد میں رزاق داؤد نے انٹرویو کے ان مندرجات کی تردید جاری کر دی مگر بد مزگی نے معزز مہمانوں کے منہ کا ذائقہ یقیناً کڑوا کر دیا۔
اس صورتحال میں افواج پاکستان نے آگے بڑھ کر اپنا روایتی کردار ادا کیا اور سی پیک کی سکیورٹی کے عزم کو دوبارہ دہرایا جس سے کم از کم دونوں ملکوں کے معاشی منصوبہ سازوں کو واضح لائن آف ایکشن ملی ہے۔ پاکستان میں کچھ مخصوص ذہن اس منصوبے کو برطانوی سامراج کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی خرابی کی اصل ذمہ دار ہماری بری طرزِ حکمرانی اور مغرب کے معاشی پالیسی ساز ادارے ہیں۔ اس ملک کی معیشت کو ہمیشہ چین نے سہارا دیا اور مغرب نے ہمیشہ امریکہ کی قیادت میں ہماری معیشت کو دھچکا پہنچانے کی کوشش کی۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ چین جیسے ہمسایہ ملک سے معاشی تعاون کسی نعمتِ خداوندی سے کم نہیں۔