لاہور: (دنیا نیوز) لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں عجب کرپشن کی غضب کہانی، کچرا اٹھانے کے بجائے،خزانے کی صفائی، اخراجات دوارب سے چودہ ارب تک پہنچ گئے،سات سال کے دوران خزانے میں پینتالیس ارب کا جھاڑو پھیر دیا،کارکردگی صفر،دنیا نیوز کے پروگرام ”آن دی فرنٹ“ میں سنسنی خیز انکشافات
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ دام بنانے کے لئے کام کرنا پڑتا ہے، مگر دنیا کے سات براعظموں میں موجود 200 کے قریب ممالک میں ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں کچھ نہ کرنے کے 45 ارب روپے بھی مل جاتے ہیں۔ صفائی کے نام پر خزانے کو جھاڑو کیسے پھیرا جاتا ہے؟ آپ کو لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی دلچسپ کہانی سناتے ہیں۔
لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی لاہور کی صفائی کے لئے بنائی گئی تھی، مگر قومی خزانے کو ہی جھاڑو لگا دیا۔ کمپنی کا مقصد تو کچرے کو ٹھکانے لگا کر اسی کچرے کی ری سائیکلنگ سے پیسہ، کھاد اور توانائی بنانا تھا لیکن کچھ دینے کی بجائے الٹا خزانے کا ہی صفایا کر دیا۔ بغیر کچھ کئے 45 ارب روپے کا صفایا ہو گیا۔
یہی نہیں کچرا ٹھکانے لگانے کا جو کام پہلے 2 ارب روپے میں ہوتا تھا، اب 14 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ سات سال میں یہ سب کیسے ہوا،لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی کہانی سنیے اور سر دھنیے۔ 2011ء میں اس کمپنی کے قیام سے پہلے صفائی کی ذمہ داری سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کے پاس تھی۔ 10600ملازمین، 500 گاڑیاں اور 6 ورکشاپس تھیں، 50 سیکنڈری کولیکشن پوائنٹس اور تین ڈمپنگ سائٹس تھیں۔ 90 لاکھ نفوس کی آبادی کے شہر سے روزانہ 4 ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا تھا لیکن اس نظام میں صرف ایک کمی تھی اور وہ تھی مربوط سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کی۔ یعنی وہ نظام نہ تھا جس کے تحت زیرو ویسٹ اور زیرو انوائرمینٹل ایمپکٹ کو یقینی بنایا جائے۔
اس مقصد کے لئے مارچ 2008ء میں پہلا تجربہ پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ بنا کر کیا گیا۔ 40 ماہرین کی خدمات لی گئیں مگر 2010ء میں اس یونٹ کو نامکمل چھوڑ کر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی سمری وزیرِاعلیٰ کو بھیجی گئی اور شہباز شریف نے چیف سیکرٹری، سپیشل سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری قانون کی مخالفت کے باوجود سمری منظور کر لی۔
شہباز شریف نے ایمان کو صفائی سے جوڑ دیا لیکن پھر صفائی کے ہر مرحلے پر ایمان کی تجارت کی گئی۔ شہباز شریف نے 26 دسمبر 2010ء کو غیر ملکی کمپنی آئیس ٹیک کو کروڑوں روپے کے عوض 18 ماہ کیلئے کنسلٹنٹ مقرر کر لیا۔ 25 جون 2011ء کو ساما نامی معاہدے کے تحت اربوں روپے کے وسائل سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے حوالے کر دئیے۔
آئس ٹیک نے اگلا اٹیک کیا اور صفائی کے لئے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو مزید دو کمپنیاں آؤٹ سورس کرنے کا مشورہ دیا۔ اسی طرح متنازع ٹینڈرز کے بعد ایل ڈبلیو ایم سی کے انڈے بچوں سے دو غیر ملکی کمپنیاں نمودار ہوئیں۔ ان کمپنیوں کو 32 کروڑ ڈالر میں 7 سال کے لئے شہر کا کوڑا اٹھانے اور ٹھکانے لگا کر کوڑے کی ری سائیکلنگ سے پیسہ، کھاد اور بجلی بنانے کا ٹھیکہ دیا گیا مگر ان کمپنیوں نے ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے وسائل اور افرادی قوت کی ذمہ داری بھی لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی پر ڈال دی۔ غیر ملکی کمپنیوں کے ذریعے قومی خزانے کو اس قدر لوٹا گیا کہ دو ارب میں ہونے والی صفائی 14 ارب روپے میں پڑنے لگی۔
سات سال کے دوران ایل ڈبلیو ایم سی کو 70 ارب سے زائد فنڈز دیے گئے لیکن صفائی کے نام پر من پسند فیصلوں اور متنازع ٹھیکوں سے خزانے کو 45 ارب کا ٹیکا لگا۔
ترقی یافتہ ممالک کچرا فروخت کرتے ہیں اور کوڑا اٹھانے والی کمپنیوں سے آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ نیویارک اور بیجنگ میں مقامی حکومتوں نے بالترتیب 412 ارب اور 1250 ارب روپے میں کچرا بیچا، مگر پاکستان میں غیر ملکی کمپنیوں نے 16 لاکھ ٹن کچرا تو اٹھایا مگر حکومت کوایک پیسہ نہیں دیا۔ الٹا 5500 ٹن کوڑے کو 7500 ٹن ظاہر کر کے روزانہ 35 لاکھ روپے کا ٹیکہ بھی لگایا۔ 2007ء میں کوڑا اٹھانے کے اخراجات یومیہ 40 لاکھ تھے جو اب 4 کروڑ تک پہنچ چکے ہیں۔
ان کمپنیوں سے معاہدے ایسے کئے گئے کہ شہر صاف ہو نہ ہو ان کمپنیوں کو سات سال میں 40 ارب روپے دینے ہی دینے ہیں۔ ڈیڈ لائن مکمل ہونے میں ابھی چھ ماہ باقی ہیں مگر صفائی کا جدید نظام تو کیا پرانے کا بھی بستر گول ہو گیا کیونکہ اس نظام میں مقامی حکومتوں کا عمل دخل بھی ایسے ہی صفر جیسے ان کمپنیو ں کی کارکردگی ہے۔
غیر ملکی کمپنیوں نے بغیر کچھ کئے 40 ارب روپے کما لئے۔ کوڑا پاکستان میں رہا لیکن سارا پیسہ زرمبادلہ بن کر بیرون ملک اڑ گیا۔ نہ ڈور ٹو ڈور کوڑا اٹھایا گیا، نہ گھروں میں لفافے بانٹے گئے ہاں البتہ لفافوں کی مد میں 11 ارب روپے کی ادائیگی ضرور کی گئی۔
معاہدے کے تحت کمپنیاں پابند تھیں کہ روزانہ 400 ٹن پھل اور سبزیوں کے فضلے سے کھاد بنائیں گی لیکن کھاد تو نہ بنی خزانے کو ڈیڑھ ارب خسارہ پھل کی صورت میں ملا۔
کوڑے سے بجلی پیدا کرنا بھی ان کمپنیوں کی ذمہ داری تھی لیکن یہی کمپنیاں خزانے پر بجلی بن کر گریں۔ 40 میگا واٹ بجلی بنانے کے لئے کنسلٹنٹ شاہ سادات علی اینڈ کمپنی کو 90 لاکھ روپے دیے گئے مگر ایک واٹ کی پیداوار نہ ہوئی۔
بائیو گیس کا پلانٹ لگانا بھی ذمہ داریوں میں شامل تھا، مگر گیس بنانے کی بجائے صرف کیش بنایا گیا۔ کوڑے کی ری سائیکلنگ سے 23 ارب روپے کمانا مقصود تھے لیکن سسٹم نہ ہونے کے باعث خسارہ ہی مقدر ٹھہرا۔ ڈمپنگ سائٹس سے آلودگی ختم کرنے کے لئے سائنسی لینڈ فل سائٹ منصوبہ نہ صرف آؤٹ آف سائٹ رہا بلکہ 1 ارب 30 کروڑ بھی آف سائٹ ہو گئے۔
قصہ مختصر ان کمپنیوں نے ایک مربوط سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم قائم کرنا تھا جو سالڈ قسم کا ناکام ہوا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان کمپنیوں کی نالائقی کو جاننے کے باوجود کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ نہ میتھین کنٹین کی گئی، نہ بجلی بنی، نہ کھاد بنی، نہ ریسائکلنگ ہوئی نہ آر ایف ڈی بنا اور نہ ہی زیر زمین پانی اور مٹی کو خراب ہونے سے بچایا گیا۔ اگر کچھ بنا تو خزانے اور وسائل کا مقبرہ۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت کے ترجمان ملک احمد خان کا پروگرام میں اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کو آفرکرتا ہوں، وہ اس منصوبے کی انکوائری کرا لیں اور تحقیقات کیلئے کمیٹی بنا دیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ غیر ملکی کمپنی کو ٹھیکہ بغیر ٹنڈر نہیں کیا گیا، چین اور دیگر ممالک نے دلچسپی ہی ظاہر نہیں کی گئی تھی۔ میں اس رپورٹ کو ہر حوالے سے مسترد کرتا ہوں، میونسپل کارپوریشن کے پاس بہترین مشینری نہیں تھی۔ کمیٹی میں سارا ریکارڈ دوں گا۔ اگر دنیا نیوز کی رپورٹ درست ثابت ہو گئی تو کبھی شہباز شریف کا دفاع نہیں کروں گا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ ملک احمد خان بلدیات کے وزیر ہوتے تو اس طرح بڈ نہ دیتے، اتنا بڑا کنٹریکٹ ایک کمپنی کو دیدیا گیا۔
عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ اگر شفاف طریقے سے ٹینڈرنگ ہوتی تو ریٹ کوئی بھی ہوتا تو اعتراض نہ ہوتا، ٹینڈر شفاف طریقے سے نہیں دیا گیا، اگر ایک کمپنی ٹینڈرنگ میں تھی تو کنٹریکٹ دینا ہی نہیں چاہیے تھا، سارے ڈاکیومنٹس لے آئیں ان کی بات کو سنیں گے۔