کراچی:ایم کیو ایم پر سوالیہ نشان

Last Updated On 15 October,2018 12:16 pm

کراچی (روزنامہ دنیا ) ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی عام انتخابات کے بعد پہلی بار قومی اورصوبائی اسمبلی کی 3 نشستوں پر اتوار کو ضمنی انتخاب ہوا اور توقع کے مطابق تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کر لی۔


مگر یہ الیکشن ایم کیوایم اور پاک سرزمین پارٹی کے مستقبل کے لئے سوالیہ نشان بھی ہے۔ ضمنی انتخاب میں سب سے دلچسپ اور عملاً حیران کن نتیجہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 243 کا رہا جہاں ووٹ کاسٹنگ کی شرح انتہائی کم رہی ۔رات گئے تک ملنے والے الیکشن کمیشن کے غیرحتمی نتائج کے مطابق یہ شرح 20 فیصد سے بھی کم ہے ۔

حلقے میں ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ سے زائد تھی جبکہ الیکشن کمیشن کے مطابق کاسٹ کئے گئے ووٹوں کی تعداد 50 ہزار کے قریب رہی ہے ۔امکان تھا کہ اس نشست پر تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے مابین ون ٹو ون مقابلہ ہوگا مگر نتیجہ تقریباً یکطرفہ ہی رہا۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ دن بھر تحریک انصاف کے مقابلے میں متحدہ قومی موومنٹ کے کیمپوں میں رش رہا اور ان کے کارکن سر گرم رہے مگر نتائج اس کے برعکس سامنے آئے۔

اس ضمن میں بعض مبصرین کا دعویٰ ہے کہ ایم کیو ایم لندن نے ایم کیو ایم پاکستان کے مقابلے میں غیر محسوس اور غیر علانیہ طور پر مخالف امیدوار کوترجیح دی جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے عالمگیرخان 35 ہزار سے زائد ووٹ لیکر کامیاب ٹھہرے جبکہ ان کے مدمقابل ایم کیو ایم کے عامر ولی الدین چشتی کو 15 ہزار کے قریب ووٹ ملے۔ اسی حلقے میں عام انتخابات 2018 میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 91 ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے اور ان کے قریب ترین حریف ایم کیو ایم کے سید علی رضا عابدی کو 24 ہزار ووٹ ملے اور ووٹنگ کی شرح تقریباً 40 فیصد رہی۔

ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کو کامیابی کے باوجود عام انتخابات کے مقابلے میں 45 ہزار سے زائد ووٹ کم ملے ہیں جبکہ وہیں پرایم کیو ایم پاکستان کوبھی 10 ہزار سے زائد ووٹوں کی کمی کا سامنا رہا۔ یہ حلقہ ایم کیو ایم کے لئے اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ اس حلقے میں 70 فیصد سے زائد آبادی اردو بولنے والوں کی جبکہ 30 فیصد دیگر افراد ہیں مگر تحریک انصاف نے رسک لیتے ہوئے پختون آبادی سے تعلق رکھنے والے امیدوار کا انتخاب کیا۔

یہی وجہ ہے کہ مبصرین سخت مقابلے کی توقع کر رہے تھے ۔مجموعی طور پراین اے 243 کے ضمنی انتخاب نے نہ صرف ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم کو مشکل میں ڈال دیا ہے ،بلکہ تحریک انصاف کی عام انتخابات2018 کی کامیابی پر اٹھنے والے سوالات کا جواب بھی دے دیا ہے ۔اس کامیابی کو تحریک انصاف کے حلقے کم ووٹ کے باوجود انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں ۔بلخصوص ملک میں تحریک انصاف کی حکومت کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات اور مسائل کے باوجود کراچی کی اس نشست پر کامیابی تحریک انصاف کے لئے انتہائی اہم ہے اور اب تحریک انصاف یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ اس کے پاس ہے اور عام انتخابات 2018 میں اس کو دھاندلی کے ذریعے کامیاب کرانے کا الزام درست نہیں ۔

یہ ضمنی انتخاب پاک سرزمین پارٹی کے لئے بھی ایک بار پھر مایوسی کا باعث بناکیونکہ پاک سرزمین پارٹی نے شکست کے یقین کے باوجود اپنی ووٹ پوزیشن بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی مگر ووٹرز نے عملاً اسے مسترد کیا۔ سندھ اسمبلی کا حلقہ پی ایس 87 ملیر رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبائی حلقہ ہے جو کراچی کے کل رقبے کے 30 فیصدسے زائد رقبے پر مشتمل ہے اور اس حلقے کا 70 فیصد سے زائد حصہ دیہی علاقے ہیں۔ یہاں بھی نتائج توقع کے مطابق ہی رہے تاہم تحریک انصاف کی جانب سے جس انتخابی مزاحمت کی توقع کی جارہی تھی وہ نظر نہیں آئی۔اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے محمد ساجد جوکھیو 32 ہزار سے زائد ووٹ لیکر کامیاب ہوئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے قادر بخش گبول کو 13 ہزار کے قریب ووٹ ملے ہیں ۔ ان حلقوں کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے عام انتخابات 2018 میں جو سرگرمی دکھائی وہ ضمنی انتخاب میں نظر نہیں آئی۔