لاہور: (دنیا نیوز) پنجاب کا ٹیکس فری بجٹ پیش، صحت کیلئے 284 ارب، تعلیمی شعبے پر 373 ارب مختص کرنے کی تجویز، اعلیٰ معیار کی 3 یونیورسٹیاں بنانے کا فیصلہ، کسانوں کیلئے آسان قرض، ون ونڈو آپریشن کی سہولیات، صوبے کے 36 اضلاع میں انصاف صحت کارڈ لانے کی تجویز، اورنج ٹرین لائن کیلئے 33 ارب مختص، پہلی بار واٹر پالیسی اور گراؤنڈ واٹر ایکٹ کیلئے جامع قانون سازی پرغور ہوا، بجٹ اجلاس میں اپوزیشن نے ایوان سر پر اُٹھا لیا، اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا، "لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی" اور "گوعمران گو" کے نعرے لگائے۔
وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت نے پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش کیا، ایک گھنٹے اور 21 منٹ کی تاخیر سے شروع ہونیوالے اجلاس کی صدارت اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے کی۔ بجٹ اجلاس کی تقریر شروع ہونے سے قبل ہی اپوزیشن ارکان نے اپنی سیٹوں پر کھڑے ہو کر شور شرابہ کیا۔ وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال 2018-19 کا بجٹ گزشتہ مالی بے ضابطگیوں کے منفی اثرات کو زائل کرنے کی کوشش ہے، یہ بجٹ دراصل اصلاحی بجٹ ہے۔
پنجاب حکومت کے بحران کی وجہ گزشتہ حکومت کی غیر ذمہ دارانہ پالیساں ہیں۔ قرض جو آمدن اور اخراجات میں فرق کو مٹانے کے لیے کسی بھی حکومت کا آخری راستہ ہوتا ہے، ماضی میں پہلے آپشن کے طور پر اپنایا گیا۔ ایسے منصوبے تشکیل دیے گئے جن کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ ذاتی خود نمائی تھی۔
صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جس صوبے کے عوام کو صحت، تعلیم، صاف پانی اور سماجی انصاف مہیا نہ ہو تو اُن کی ترجیحات کیا ہونی چاہیئں؟ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین جاتے جاتے عوام کے حلق کا کانٹا بنا گئے، منصوبہ کی مالیت تقریبا 165 ارب روپے بتائی گئی جبکہ اب یہ منصوبہ 250 ارب روپے سے بھی زیادہ میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔ صوبہ اچانک کس طرح 94 ارب روپے کے خسارے میں گیا؟ مالی بے ضابطگیوں کی ایک لمبی داستان ہے جو بجٹ کی تقریر میں ممکن نہیں۔
سابق حکومت نے گزشتہ مالی سال کے اختتام پر سٹیٹ بینک آف پاکستان سے 41 ارب روپے کا ڈرافٹ لیا، اس کے باوجود کنٹریکٹرز کے 57 ارب روپے کے بل ادا نہ کیے جا سکے۔ حکومتی قرضہ مالی سال کے اختتام تک 1100 ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا تھا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ سابق حکومت نے قرض لینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں چھوڑا، قرض لینے کا فیصلہ انتہائی مجبوری میں کیا۔ اب عوامی بہبود کے منصوبوں پر پیسے خرچ کیے جائیں گے۔
وزیر خزانہ پنجاب نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی ترجیحات میں سوشل سیکٹر اور ہیومن ڈویلپمنٹ ہیں۔ وزیراعظم کا 100 روزہ اصلاحی پروگرام صوبے کی ترقیاتی منصوبہ بندی کا مرکز ہے۔ بجٹ میں کسان بھائیوں کے لیے آسان کریڈٹ اور ون ونڈو آپریشن کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ لیبر لاز میں ایسی ترامیم متعارف کروائی جا رہی ہیں جن کا مقصد مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ تحریک انصاف کا ریفارم ایجنڈا عوام دوست ہے۔
وزیر خزانہ پنجاب نے بتایا کہ نئی حکومت کے رواں مالی سال کے بجٹ کا ٹوٹل حجم 2026 ارب 51 کروڑ روپے ہوگا۔ نئے سال 2018-19 میں جنرل ریونیو کی مد میں 1652 ارب روپے موصول ہونے کا تخمینہ ہے۔ وفاقی حکومت سے پنجاب کو 1276 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔ صوبائی ریونیو کی مد میں 376 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ٹیکسز کی مد میں 276 ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 100 ارب روپے شامل ہیں۔
مالی سال 2018-19 میں جاریہ اخراجات کا کل تخمینہ 1264 ارب روپے ہے۔ تنخواہوں کی مد میں 313 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں، پنشن کی مد میں 207 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے لیے 438 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ سروس ڈیلیوری اخراجات کے لیے 305 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔ سالانہ ترقیاتی اخراجات کے لیے 238 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔
مالی سال 2018-19 کے بجٹ میں اسپیشلائزڈ ہیلتھ کے لیے 134 ارب روپے، پرائمری اور سکینڈری ہیلتھ کئیر کے لیے 124 ارب رکھے گئے۔ ہیلتھ انشورنس پروگرام کے لیے 4 ارب، سکول ایجوکیشن کے لیے 332 ارب روپے اور ہائیر ایجوکیشن کے لیے 37 ارب روپے مختص کیے گئے جبکہ اسپیشل ایجوکیشن کے لیے بھی سوا ارب روپے مختص کیے گئے۔
واٹر سپلائی کی فراہمی اور نکاسی آب پر بھی ساڑھے 20 ارب روپے خرچ کرنے کی تجویز ہے۔ ہاوسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ کے لیے 19 ارب روپے، زرعی شعبے کے لیے 31.7 ارب روپے جبکہ آبپاشی کے لیے 38 ارب 35 کروڑ خرچ کرنے کی تجویز ہے۔
خواتین اور بچیوں کی صحت کی بہتری کے لیے 43 کروڑ روپے مختص ہوئے۔ انڈسٹری، کامرس اور سرمایہ کاری کے لیے 16 ارب 68 کروڑ روپے اور شعبہ توانائی پر 5 ارب 40 کروڑ خرچ ہوں گے۔ سیف سٹی اتھارٹی پر 3 ارب 40 کروڑ اور شاہرات پر 48 ارب 80 کروڑ خرچ کیے جائیں گے۔ ماس ٹرانزیٹ کے لیے 49 ارب 50 کروڑ، لائف اسٹاک، جنگلات اور فشریز اور جنگی حیات پر 13 ارب 50 کروڑ خرچ ہوں گے۔
مقامی حکومتوں اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ پر 80 ارب 91 کروڑ خرچ کیے جائیں گے۔ یوتھ افئیرز، اسپورٹس اور ٹورازم کے لیے 3 ارب 95 کروڑ مختص اطلاعات اور کلچر پر 2 ارب 40 کروڑ کا خرچہ کیا جائے گا۔
صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے کہا کہ حکومت نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے پالیسی بنائی جارہی ہے، خواتین کو حقوق دلوانے کے لیے حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔ حکومت تعلیم کے شعبے کی ترقی کو اولین ترجیح سمجھتی ہے، ہائی سکولز میں ٹریننگ کا پروگرام متعارف کرایا جارہا ہے۔
وزیر خزانہ پنجاب کی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان اپنی سیٹوں پر کھڑے ہو کر نعرے لگاتے رہے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر اچھال دیں۔ اپوزیشن اراکین اسمبلی نے اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ بھی کیا۔ اپوزیشن نے "لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی" اور "گوعمران گو" کے نعرے بھی لگائے۔