لاہور: (تجزیہ، سلمان غنی) سندھ میں جعلی، بے نامی اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ اور اومنی گروپ کے خلاف ہونے والی تحقیقات کے بعد سندھ میں کرپشن کا حجم روز بروز بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
نیب، وفاقی تحقیقاتی ادارے اور خصوصاً اس حوالے سے بننے والی جے آئی ٹی کی تحقیقات اور تفصیلات اتنی خوفناک نظر آ رہی ہیں کہ یہ بظاہر 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ سے شروع ہونے والا معاملہ تقریباً ایک سو ارب تک پھیل چکا ہے۔ اس میں سینکڑوں جعلی اکاؤنٹس، درجنوں ادارے، سینکڑوں پرائیویٹ کمپنیاں، سرکاری ٹھیکیدار اور بڑے بڑے منصوبوں میں لئے جانے والے کک بیکس کے جال کا آپس میں گہرا تعلق ظاہر ہو رہا ہے جس کی بنا پر سندھ کے سیاسی افق پر غیر یقینی کے بادل اور سندھ کے سیاسی آقاؤں بالخصوص سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، صوبائی کابینہ کے طاقتور وزرا اور سندھ میں بعض بیورو کریٹس کے گرد نیب کا شکنجہ آہستہ آہستہ کسا جا رہا ہے۔ جوں جوں تحقیقات کا سلسلہ آگے بڑھے گا، پاکستان کے سیاسی محاذ پر پیپلز پارٹی کی سیاسی پوزیشن و اضح ہوتی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی اسلام آباد میں ہونے والی پریس کانفرنس اس میں اٹھائے جانے والے نکات ، ان کا لب و لہجہ اور سب سے بڑھ کر ن لیگ کو موجودہ حالات میں گلے لگانے کا اشارہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ سندھ میں سیاسی اور حکومتی میدان میں گڑبڑ شروع ہو چکی ہے۔
لہٰذا دیکھنا یہ ہوگا کہ اس صورتحال کا منطقی انجام کیا ہوگا ؟ احتساب کی موجودہ لہر کیا سندھ حکومت پر اثر انداز ہوگی؟ اور اگر کرپشن کے خلاف احتسابی اقدامات اور سیاسی ہتھکنڈے سندھ میں آزمائے گئے تو پیپلز پارٹی کی موجودہ سیاسی منظرنامہ میں کیا حیثیت ہوگی؟ سندھ میں حالات اور رجحانات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے سندھ کے محاذ پر گڑ بڑ کا آغاز ہو چکا ہے اور احتسابی عمل براہ راست پیپلز پارٹی کی حکومت پر اثر انداز ہوگا۔ جس کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے اہم حکومتی حلقوں میں سندھ میں گورنر راج کے حوالے سے چہ مگوئیاں شروع ہیں اور اس کی بنیاد جے آئی ٹی کی رپورٹ کو بنایا جا رہا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی عمل میں سندھ حکومت تعاون نہیں کر رہی۔ رپورٹ میں اس امر کے واضح اشارے بھی دیئے گئے ہیں کہ سندھ میں منی لانڈرنگ کے خلاف تحقیقات اور جعلی بینک اکاؤنٹس کا سکینڈل سامنے آنے پر سندھ میں اثر و رسوخ کے حامل خصوصاً سرکاری افسران کے کالے دھن سے بھرے بینک اکاؤنٹس اچانک خالی ہونا شروع ہو گئے ہیں لہٰذا اس حوالے سے پیدا شدہ خوف و ہراس نے خود وہاں حکمران پیپلز پارٹی کو بھی پریشان کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اس سارے عمل پر بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر تحفظات کے اظہار کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر رکھے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین سابق صدر آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں پڑاؤ ڈال دیا ہے اور ان کی جانب سے براہ راست حکومت اور بالواسطہ طور پر احتسابی عمل کے خلاف کسی لائحہ عمل کے تعین کے لیے مشاورتی عمل شروع ہے۔
دوسری جانب سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ جب تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ کن اقدام یا تحریک شروع نہیں ہو سکتی۔ مسلم لیگ ن انتخابی عمل اور اس کے بعد حکومت سازی کے عمل کے دوران پیپلز پارٹی کے ذمہ داران کو یہ باور کراتی نظر آ رہی تھی کہ پہلا ٹارگٹ ہم اور دوسرا پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت ہے لہٰذا حکومت سے کسی خیر کی توقع نہ رکھیں اور ملکر ایوانوں کے اندر اور باہر کوئی حکمت عملی طے کریں لیکن پیپلز پارٹی حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے سافٹ کارنر ظاہر کرتی رہی اور ان کے حلقے یہ کہتے سناتی دیئے کہ ا سٹیبلشمنٹ شریف قیادت اور مسلم لیگ ن کو ٹارگٹ کرنے کے ساتھ پیپلز پارٹی کو چھیڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت کے گرد کسا جانے والا شکنجہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں اور یہی وہ خدشہ اور خطرہ ہے جس نے پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کے ساتھ لا کھڑا کیا ہے اور ایک دوسرے کی لیڈر شپ کے حوالے سے شدید تحفظات ظاہر کرنے والی دونوں جماعتیں وقت کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب تر آتی نظر آ رہی ہیں۔ وفاقی حکومت کے ایک ذمہ دار ذرائع نے راقم الحروف کو بتایا کہ حکومت اور ادارے کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف تحقیقات پر کمپرومائز کے لیے تیار نہیں لہٰذا سندھ میں گورنر راج کا آپشن خارج از امکان نہیں جس حوالے سے آئندہ دو ماہ اہم ہیں اور اس کا انحصار سندھ حکومت کے طرز عمل پر ہوگا۔
دوسری جانب سیاسی حالات کے رخ کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کی جانب سے اختیار کیا جانے والا طرز عمل خصوصاً اپوزیشن کے رہنماؤں کو جرائم پیشہ قرار دینے کے باعث متحدہ اپوزیشن کے قیام امکانات بڑھ رہے ہیں اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ فی الحال پیپلز پارٹی کو ہی قرار دیا جا رہا ہے جن کی سندھ حکومت قائم ہے اور وہ شروع سے یہ مؤقف ظاہر کرتی نظر آتی ہے کہ سسٹم کے کامیابی سے چلنے کے خواہاں ہیں۔ حکومت کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے لیکن جوں جوں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن اور دیگر ذمہ داران کے گرد احتساب کا گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے توں توں پیپلز پارٹی کی قیادت کے حکومت کے حوالے سے لہجے میں سختی آ رہی ہے، پہلے بلاول بھٹو وزیراعظم عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم قرار دیتے نظر آئے اور اب سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی یہ کہہ دیا کہ تحریک انصاف نہ ملک چلا سکتی ہے اور نہ حکومت ۔ سیاسی جماعتیں اس کے خلاف قرار داد لائیں۔ یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی حالات کو سمجھتے ہوئے حکومت کے خلاف یکسوئی اختیار کر رہی ہے اور اگر آصف علی زرداری ان کے قریبی عزیزوں، دوستوں کے خلاف احتسابی عمل میں نرمی نہ آئی ‘‘جن کے امکانات کم ہیں’’ تو پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن ، جے یو آئی، اے این پی سمیت دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی اور اپنے اقتدار کے پہلے سال میں ہی حکومت کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس صورتحال کا سامنا منتخب حکومت کو دوسرے تیسرے سال میں ہوتا ہے البتہ شدید معاشی مشکلات اور خصوصاً مہنگائی کے طوفان کے باوجود حکومت کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تک اسٹیبلشمنٹ پوری طرح سے منتخب حکومت کے پیچھے کھڑی ہے اور سرپرستی کر رہی ہے اگر حکومت سیاسی محاذ پر عوام کو ڈلیور کرنے اور اپوزیشن کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو بحر حال اسٹیبلشمنٹ کو ملکی مفادات اور وفاق پاکستان کے لیے اپنے روایتی کردار پر مجبور ہونا پڑے گا، حکومتی ذمہ داران اور وزراء فی الحال تو اپنی حکومت کو در پیش شدید مشکلات کے باوجود یہ تو کہتے نظر آ رہے ہیں کہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ بدلتے حالات میں اسٹیبلشمنٹ کی نظریں بدل جاتی ہیں کیونکہ ان کی کمٹمنٹ سیاسی قوتوں یا منتخب حکومتوں سے زیادہ ریاست پاکستان کے ساتھ ہوتی ہے اور سیاسی قوتوں کو اس تلخ حقیقت کا احساس بروقت نہیں بلکہ وقت کھو جانے کے بعد ہوتا ہے۔