لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) چین کے پاکستان میں سفیر نے سی پیک کے حوالے سے تمام تر تحفظات اور خدشات کے ازالہ کے ساتھ ہر طرح کی معلومات بہم پہنچانے کا اعلان کر کے مذکورہ منصوبہ کے ساتھ چینی کمٹمنٹ اور پاکستان سے اپنے مضبوط تعلقات کا اعادہ کیا ہے اور چینی سفیر نے اسلام آباد کی ایک تقریب میں جہاں سی پیک کو پاکستان پر چینی اعتماد کا مظہر قرار دیا وہاں یہ بھی کہہ ڈالا کہ بہت سی قوتوں کو پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات اور تعاون کا یہ سلسلہ کھٹکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین سے قبل پاکستان میں چینی سفیر کی جانب سے سی پیک کی اہمیت، پاکستان چین کے تعلقات اور علاقائی صورتحال میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے کی جانے والی باتیں اور خیالات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ چین کا پاکستان سے تعلق حکومتوں کے مرہون منت نہیں بلکہ ریاست پاکستان سے ہے اور وہ صرف سی پیک کے ذریعے ہی پاکستانی ترقی و خوشحالی کا خواہاں نہیں بلکہ بیرونی محاذ پر وہ افغانستان میں مفاہمتی عمل اور خصوصاً بھارت کو مذاکرات کی پاکستانی پیشکش کو بھی سراہتا نظر آتا ہے۔
چینی سفیر کی جانب سے آنے والے مؤقف کو وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین کے حوالے سے اہم سمجھا جا رہا ہے اور اس طرح کی اطلاعات آ رہی ہیں کہ سعودی عرب کے بعد چین کی جانب سے بھی پاکستان کو اچھے نتائج ملیں گے جو خود پاکستان کی معیشت اور اقتصادی صورتحال میں سنبھالا دیں گے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر چینی سفیر کو یہ کہنے کی ضرورت کیونکر پیش آئی کہ پاکستان کے تحفظات اور خدشات کا ازالہ کریں گے اور وہ کونسی فورسز ہیں جنہیں پاک چین تعلقات اور خصوصاً سی پیک کا منصوبہ ہضم نہیں ہو پا رہا اور خود پاکستان کے اندر سی پیک کو متنازعہ بنانے کے لیے کون سرگرم ہے۔
سابق حکومت کی پالیسیوں کے حوالے سے دو آرا ہو سکتی ہیں لیکن سی پیک سے ان کی کمٹمنٹ اور پاک چین دوستی اور تعلق کے حوالے سے ان کی گرمجوشی کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ حقیقی طور پر یہ منصوبہ قومی ہے جس کا حکومتوں’ جماعتوں اور افراد سے نہیں ریاست پاکستان سے تعلق ہے اور پاکستان کے دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی سپرٹ کے مطابق اس منصوبہ پر عمل درآمد پاکستان کو اقتصادی خود انحصاری کی منزل پر لے جائے گا ۔ چین کی جانب سے مشکل وقت میں چھ ارب ڈالرز کی امداد بھی ظاہر کر رہی ہے کہ چین پاکستان کو مشکل کی صورتحال سے نکالنا اور اسے ترقی کی منزل پر گامزن دیکھنا چاہتا ہے۔
لہٰذا گیند اب ہماری حکومت کے کورٹ میں ہے اور انہیں اپنے شکوک و شبہات دور کر لینے چاہئیں اور خصوصاً سی پیک کے منصوبہ پر سیاسی بیانات سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ سی پیک پر کسی قسم کی کنفیوژن بڑی غلط فہمی کا باعث بن سکتی ہے اور اس حوالے سے ہی وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین کو اہم قرار دیا جا رہا ہے اوروزیراعظم کا دورہ چین سی پیک پر زیادہ یکسوئی اور جوش و جذبہ کا باعث بنے گا اور سی پیک پر عمل درآمد کے حوالے سے ایک نئی سپرٹ دیکھنے کو ملے گی اور ایک بڑی طاقت اور بڑے ملک کے طور پر چین سی پیک سمیت ہر ایشو پر پاکستان کے اطمینان کو یقینی بنائے گا۔