لاہور: (دنیا نیوز) ہر پھول کی اپنی خصوصیت ہوتی ہے۔کوئی سادہ ہوتا ہے توکسی میں رنگ بھرے ہوتے ہیں۔کوئی پھول خوشبو بکھیر رہا ہوتا ہے توکوئی بغیر خوشبو کے ہوتا ہے۔ ایسے ہی ہر دن کی اپنی اہمیت اور انفرادیت ہوتی ہے۔کوئی دن خوشیوں کا پیغام لاتا ہے توکوئی دن دکھوں اورغموں سے بھرا ہوتا ہے۔
دن تو سب ایک ہی جیسے ہوتے ہیں لیکن وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی وجہ سے ان کی خصوصیت اور اہمیت بدل جاتی ہے۔ 14 اگست 1947ء کا دن برصغیر کے مسلمانوں کے لئے خوشی و مسرت کا پیغام لایا تھا تو27 اکتوبر1947ء کا دن اہل کشمیر کے لئے غلامی و تاریکی کا پیغام لے کر آیا تھا۔
گویا وقوع پذیر ہونے والے دو واقعات کی وجہ سے 14 اگست اور27 اکتوبر کی نوعیت بدل گئی تھی۔ 14اگست وہ دن ہے جب برصغیرکے مسلمان آزادی سے ہمکنارہوئے تھے جبکہ27 اکتوبروہ دن ہے جب ریاست جموں کشمیرکے مسلمان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے تھے۔27 اکتوبر تاریخ انسانی کا وہ سیاہ دن ہے جب بھارت نے ریاست جموں کشمیر پر قبضہ وحملہ کے لئے فوجیں داخل کی تھیں۔ تقسیم ہند اور ریاستوں کے الحاق کا جوفارمولہ وضع کیا گیا تھا اس کی رو سے ریاست جموں کشمیر کا الحاق صرف پاکستان ہی سے ہو سکتا تھا۔ اس لئے کہ ریاست کی اکثریتی آبادی مسلمان تھی۔ ریاست کے باشندوں کے جغرافیائی و لسانی رشتے ناطے بھی پاکستان سے ملتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ریاستی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ و اعادہ کر چکی تھی۔ انگریز اور ہندو مسلمانوں کے دشمن اور پاکستان کے معاملے میں پہلے ہی بدنیت تھے لہٰذا انہوں نے پاکستان کو بے دست وپا کرنے اور آبی طور پرکمزور کرنے کے لئے ریاست جموں کشمیر پر حملے اور قبضے کا فیصلہ کر لیا۔
اس مقصد کی خاطر مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کا ایک جھوٹا معاہدہ تراشا گیا۔ بعد ازاں اس معاہدے کو جواز بناتے ہوئے 27 اکتوبر1947ء کو رات کی تاریکی میں بھارت نے اپنی فوج ریاست میں داخل کر دی۔
واضح رہے کہ اس وقت بھارتی فوج کو انگریز وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن، انگریز فوجی افسروں کی مدد و معاونت بھی حاصل تھی۔ مزید ستم یہ تھا کہ اس وقت کا مہاراجہ ہری سنگھ بھی مسلمانوں کا دشمن تھا۔ ہری سنگھ اس ڈوگرا خاندان سے تعلق رکھتا تھا جوگزشتہ سوسال سے مسلمانوں پر ظلم و جبر کرتا چلا آ رہا تھا۔ کماتے مسلمان اورکھاتے ڈوگرے حکمران تھے۔ مسلمانوں پر لا تعداد اور بے جا طرح کے ٹیکس عائد کر رکھے تھے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کوگھرمیں صرف ایک چولہا رکھنے اور تازہ ہواکے لئے ایک کھڑکی نصب کرنے کی اجازت تھی اگرکوئی دوسرا چولہا رکھنا چاہتا یا دوسری کھڑکی لگانا چاہتا تو اسے ان دونوں چیزوں کا ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ الغرض ڈوگراخاندان کا سوسال پر محیط ایک ایسا دورتھا کہ ریاست جموں کشمیرکے اندر تازہ ہوا سمیت ہر چیز پر ٹیکس تھا۔اس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب ڈوگرا خاندان کی مداخلت معاشی معاملات سے بڑھتے بڑھتے مذہبی معاملات تک جاپہنچی۔ دوسری طرف برصغیرکے حالات تیزی سے بدل رہے تھے، انگریزکا اقتدار دم توڑ رہا تھا، ہٹلرکی پے درپے یلغارکی وجہ سے تمام نوآبادیاتی ملک تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکل رہے تھے۔
برصغیر میں آزادی کی تحریکیں تیزدم ہو رہی تھیں اور مسلمان بھی قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی قیادت میں پاکستان کے قیام کے لئے سروں پر کفن باندھ کر میدان میں آ چکے تھے۔ اس موقع پر پاکستان کے قیام کے لئے کشمیرکے مسلمانوں نے بھی تاریخ ساز قربانیاں دی تھیں۔ کشمیری مسلمانوں کو پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دینے اور تکمیل پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے 27 اکتوبر1947ء کو اپنی فوجیں 85 فیصد مسلم آبادی والی ریاست جموں کشمیرمیں داخل کرکے بھارت نے شب خون مارا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے خودگولی چلاکرکشمیری مسلمانوں کے قتلِ عام کا آغاز کیا۔ اہل کشمیرنے جرأت وبہادری کا راستہ اختیارکیا۔ جیسے ہی بھارت نے اپنی فوجیں ریاست جموں کشمیرمیں داخل کیں کشمیری مسلمان ڈنڈے، سوٹے، پرانی بندوقیں اٹھائے میدان جہاد میں کود پڑے اور تمام ترظلم کے باوجود نہتے کشمیریوں نے ہزاروں بھارتی فوجیوں، ٹینکوں، طیاروں، توپوں اور رائل انڈین ایئر فورس کو شکستِ فاش سے دوچار کیا اور ایک بڑا علاقہ واگزار کروا لیا۔
اب مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان بھارت کے زیر تسلط خطہ کی آزادی کے لئے برسرپیکارہیں۔ 27 اکتوبر تجدید عہد کا دن ہے۔ آئیے آج کے دن ہم عہدکریں کہ جس طرح اہل کشمیر سات دہائیوں سے تکمیل پاکستان کی جنگ لڑتے چلے آرہے ہیں ایسے ہی ہم بھی کشمیرکی آزادی کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
تحریر: (ارشاد احمد ارشد)