لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) قومی سیاست میں این آر او کا شور و غل کس امر کا شاخسانہ ہے ؟ وزیراعظم عمران خان بڑے پر اعتماد لہجے میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کسی کو این آر او نہیں ملنے والا اور اپوزیشن جماعتوں کے ذمہ داران اس پر یہ کہہ کر گرجتے اور برستے نظر آ رہے ہیں کہ کس نے مانگا این آر او اور کیسا این آر او۔ اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے تو قومی اسمبلی میں این آر او پر لعنت بھیج ڈالی اور کہا کہ وزیراعظم بتائیں این آر او کب، کہاں اور کیسے مانگا ؟ ثابت کر دیں تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ لہٰذا دیکھنا یہ پڑے گا کہ این آر او کی بازگشت میں کتنی حقیقت، کتنا فسانہ ہے اور کیا واقعتا اپوزیشن قیادت یا ان میں کوئی این آر او کا متمنی ہے اور کیا عمران خان اور ان کی حکومت اس پوزیشن میں ہو گی کہ کسی کو این آر او دے سکے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی منتخب ایوان میں اپنے پہلے خطاب میں مفاہمت کی پیشکش کے پیچھے کیا ہے ، این آر او پر واویلا تب سے شروع ہے جب سے وزیراعظم عمران خان نے اسکا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ خواہ کچھ کر لیں کسی کو این آر او نہیں ملنے والا۔ اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ ن کی جانب سے آنے والا رد عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے ہاں ایسی کوئی سوچ اور اپروچ موجود نہیں کہ این آر او لیا جائے خصوصاً وزیراعظم عمران خان کی حکومت یا خود وزیراعظم سے ایسے کسی ریلیف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ عمران خان کا طرز عمل یہ بتا رہا ہے کہ احتساب پر کسی لچک یا کمپرومائز کیلئے تیار نہیں۔ بلکہ ان کی بدن بولی اور گفتگو یہ ظاہر کر رہی ہے کہ احتساب کے قوانین کے تحت ہونے والی تاخیر بھی انہیں ہضم نہیں ہو پا رہی۔
جہاں تک اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے این آر او کے حوالے سے دیئے جانیوالے چیلنج کا سوال ہے تو شریف فیملی اپنے لیے ریلیف یا انصاف کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کسی سے بھی روابط اور قائم کر سکتی ہے مگر وزیراعظم عمران خان سے نہیں کیونکہ وہ اس بات کی متحمل بھی نہیں ہو سکتی کہ وزیراعظم عمران خان یا ان کی حکومت سے کوئی رعایت لے۔ اسوقت بوکھلاہٹ اپوزیشن پر طاری ہونے کے بجائے خود حکومتی ذمہ داروں کے لب و لہجہ پر طاری نظر آ رہی ہے جہاں تک این آر او کا سوال ہے کہ کیا وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو کوئی این آر او دے سکتی ہے، ملکی سیاست اور حکومتی اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھنے والے اس پر یہ کہتے ہوئے حیرانگی ظاہر کرتے نظر آ رہے ہیں کہ کیا عمران خان کی حکومت کو اس کا اختیار حاصل ہے جبکہ خود حکومت یہ کہتی نظر آتی ہے کہ احتسابی عمل ہمارا شروع کیا ہوا نہیں۔ البتہ ان پر پیش رفت اب شروع ہو رہی ہے۔
یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ این آر او کا ملکی سیاسی تاریخ میں ایک پس منظر ہے جس کے تحت جسے ریلیف مہیا کرنا ہو تو اندر خانے کچھ چیزیں طے کر کے ان کے مقدمات سے آزاد کر دیا جاتا ہے اور اب بھی کرپشن کے مقدمات کی زد میں آنے والوں کو خوب معلوم ہے کہ انہیں اس حوالے سے ریلیف کہاں سے ملنا ہے۔ اس لئے وہ عمران خان کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ بندے کا نام بتائیں جس نے ان سے ایسی کوئی اپیل کی ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت ان کی جانب سے سامنے آنے والا رد عمل اور خصوصاً منتخب حکومت کو براہ راست ٹارگٹ نہ کرنے اور فی الحال اسے چلنے دینے کا اعلان یہ ظاہر کر رہا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر ان کے معاملات زیر غور ہیں اور انہیں ریلیف ملنے کے امکانات محسوس کئے جا رہے ہیں، آصف زرداری کی جانب سے حکومت کے لیے مفاہمت کی پیشکش یہ ظاہر کر رہی ہے کہ اب خود انہیں بھی ریلیف کی ضرورت ہے اور مفاہمانہ پیشکش اس کے لیے پیغام ہے۔