اسلام آباد (نمائندہ دنیا، دنیا نیوز) وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ غیر ملکی این جی اوز حساس علاقوں میں جا کر میپنگ کرتی ہیں اور حساس اداروں کی معلومات بھی اکٹھی کرتی ،اس سے متعلق ان کیمرا اجلاس میں مزید تفصیلات بتائی جا سکتی ہیں۔
ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے انکشاف کیا کہ بعض غیر سرکاری تنظیمیں ہم جنس پرستی کو پروموٹ کر رہی ہیں۔ یہ نوجوانوں کو ہم جنس پرستی پر ابھارتی ہیں اور‘‘گے میرج’’ پر سیمینار بھی کرانا چاہتی ہیں۔
کمیٹی نے وزارت داخلہ کو کام سے روکے جانے والی این جی اوز کو وجوہات سے آگاہ کرنے کی بھی ہدایت کر دی۔ سینیٹ کمیٹی نے ملک میں لاپتا افراد کے معاملے کو انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے چاروں صوبوں سے حراستی مراکز کی تفصیلات طلب کرلیں۔
سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق فنکشنل کمیٹی کا اجلاس سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت ہوا ۔وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا کہ بعض غیر ملکی این جی اوز کی رائے تھی کہ ہم جنس پرست شادیاں کرسکتے ہیں۔ سینیٹ کمیٹی نے این جی اوز پر پابندی سے متعلق پالیسی مسترد کر دی اور کہا کہ این جی اوز سے متعلق پالیسی میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
کمیٹی نے سفارش کی کہ وزارت داخلہ تمام وزارتوں کو اعتماد میں لے کر پالیسی بنائے اور نئی پالیسی کی کابینہ سے منظوری لی جائے ۔شیریں مزاری نے کہا کہ این جی اوز پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، بعض این جی اوز نے رجسٹریشن کے عمل کو مکمل نہیں کیا تھا اور رجسٹریشن کا عمل مکمل نہ کرنے کے باعث این جی اوز کو کام سے روک دیا گیا ہے۔
لاپتا افراد کے حوالے سے وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کمیٹی کو بتایا کہ عمران خان اس معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں، حکومت کو جبری گمشدگیاں روکنے کیلئے قانون سازی پر کوئی اعتراض نہیں۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں صرف لاپتا افراد کے معاملے پر غور کیا جائے گا۔
کمیٹی کا کہنا تھا کہ این جی اوز سے متعلق پالیسی کی کابینہ سے منظوری بھی نہیں لی گئی جبکہ وزارت داخلہ نے وزارت انسانی حقوق سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی۔ کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کو لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے قانون سازی کرنے کی تجویز دی۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک جمہوری ملک میں لوگوں کو جبری گمشدگی یا لاپتا نہیں کر سکتے ، آئین کے مطابق کسی بھی شخص کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازمی ہوتا ہے ،کمیٹی ملک بھر میں حراستی مراکز کا دورہ کرے گی،گمشدہ لوگوں کو بھی اغوا کے زمرے میں لیا جاتا ہے ، اس کیلئے الگ قانون ہونا چاہیے۔