لاہور:(روزنامہ دنیا) چین کے پاس 3 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کے زرمبادلہ کے ذخائرہیں جو امریکہ اور یورپی یونین کے مجموعی ذخائرسے کہیں زیادہ ہیں، اب چین چاہتا ہے کہ وہ صرف دنیا کی دوسری بڑی معیشت نہ رہے بلکہ پہلی بھی بن جائے، وہ عالمی مالیاتی و سیاسی نظام اور عالمی مالیاتی اداروں میں اپنا اثرو رسوخ چاہتا ہے، وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ڈالر کے مقابلہ میں اس کی کرنسی یوآن بھی وہی پوزیشن حاصل کر لے، اس کے مقاصد بالکل واضح ہیں۔
چین چاہتا ہے کہ برکس اور ایشیائی انفرا سٹرکچر بینک کے ممالک اس سے قرضہ لیں اور ان ممالک میں سرمایہ کاری اور تجارت اس کی کرنسی یوآن میں ہو اور اس سے دنیا میں ڈالر کا اثر کم ہوگا اور اس کی کرنسی بھی ڈالر کے بر ابر آ جائیگی، آئی ایم ایف چین کو پہلے ہی دنیا کی 5 ویں کرنسی کی حیثیت سے تسلیم کر چکا ہے اب پاکستان سے بھی یہی بات کی گئی ہے، جس پر پاکستان نے ایک فریم ورک تیار کیا ہے اور اس سے بلا شبہ ہمارا ڈالر پر انحصار کم ہوگا، مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس سے ہمارے مقاصد حاصل ہونگے یا نہیں، چین کیساتھ گزشتہ سال ہم نے 14 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ اٹھایا۔ ہم چاہتے تھے کہ ہماری برآمدات میں اضافہ ہو تاکہ تجارتی خسارہ کم ہو، جس میں اس وقت کوئی بڑی پیش رفت نظر نہیں آئی، البتہ چینی صدر نے ایک بیان دیا ہے کہ ہمارے ساتھ کارو بار کرنیوالے دنیا بھر کے ملکوں کا فاضل خسارہ کم کرنا چاہتے ہیں، ہم ان کو سہولیات دینگے، لیکن اس میں نظر نہیں آ رہا کہ ہمارا خسارہ کتنا کم ہوگا۔
پاکستان کی خواہش تو یہی ہونی چاہئے تھی کہ برآمدات بڑھانے کیلئے اقدامات ہوں اور بھاشا ڈیم ملکیت دیئے بغیر بنوائیں اور شرح منافع اور دیگر چیزوں پر جو معاہدے ماضی میں ہو چکے ہیں ان پر نظر ثانی کی جائے تاکہ ہمارے مفادات کا بھی تحفظ ہو مگر ان چیزوں پر خاص توجہ نہیں دی گئی، لیکن اس میں ہمارا کچھ فائدہ ضرور ہوگا، فی الحال اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارا ڈالر پر انحصار کم ہوگا جو اچھی چیز ہے۔ دوسری بات یہ کہ ڈالرائزیشن کا رحجان ہے اور ایک سال میں لوگوں کے ڈیپازٹ میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور جہاں تک پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں اس حکومت کے دو ماہ میں دو ارب ڈالر گر گئے ہیں اور اکتوبر میں 16 سے 10 ارب ڈالر گر گئے جس سے ڈالرائزیشن کا رحجان نظر آ رہا ہے، مگر دیکھنا یہ بھی ہے اس کا کتنا اثر ہوگا؟۔