لاہور: (دنیا میگزین) 2008ء میں گرفتار ہونے والے ”خانانی اینڈ کالیا “کمپنی کے مالک مناف کالیا تھے، ایک تہائی منی مارکیٹ پر اسی کا قبضہ تھا۔ بیرون ملک قائم اپنی برانچوں کی مدد سے یہ کمپنی سرمائے کی سمگلنگ میں ملوث تھی۔
ایف آئی اے نے انہی دنوں چھاپہ مار کر 45 افراد کو حراست میں لیا جس کے بعد انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت گرفتاریاں معمول بن گئیں، مگر سمگلروں کے ہاتھ ہی نہیں پورا جسم ہی بہت مضبوط ہے، انہیں قابو کرنا آسان نہیں، اس کی گرفتاری کے بعد بینکاری نظام ’مفلوج‘ ہو گیا، سٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں اور سرمایہ پاکستان سے پرواز کر گیا۔
سٹاک مارکیٹوں اور مالیاتی منڈی کو دباﺅ کا سامنا کرناپڑا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر آ گئے اور معیشت کو آئی ایم ایف، اسلامی ترقیاتی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی بی آر ڈی جیسے اداروں سے ”انجکشن“ لگوانا پڑے، یہ تھا منی لانڈرنگ کا پہلا بڑا مقدمہ۔
خانانی اینڈ کالیا کی گرفتاری امریکی دباﺅ پر عمل میں آئی تھی۔ 2015ء میں امریکی وزارت خزانہ نے پاکستان کو بتایا کہ یہاں سے سالانہ 10ارب ڈالر دنیا بھر میں غیر قانونی طور پر منتقل کیے جاتے ہیں۔
سٹیٹ بینک کے سابق گورنر یاسین انور نے 2013ء میں امریکی محکمہ خزانہ کی رپورٹ کی بالواسطہ طور پر تصدیق کی تھی۔ ان کے اعدادوشمار بھی امریکی اعدادوشمار سے کم نہ تھے۔ اگر یہ 10 ارب ڈالر سمگل نہ ہوتے تو پاکستان کو 2013ء میں آئی ایم ایف سے 6.64 ارب ڈالر لینے کی ضرورت نہ پڑتی۔ یہ تین سالہ پروگرام ستمبر 2013ء سے شروع ہو کر 2016ء ستمبر ختم ہوا۔
آئی ایم ایف نے اس پروگرام کے تحت 1898ء میں ترمیم کے ذریعے منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کو بھی اس میں شامل کرنے کی ہدایت دی۔ چنانچہ یہ دفعات منی لانڈرنگ کے ایکٹ میں شامل کر لی گئی۔
اس کی آخری قسط دسمبر 2014ء میں اس وقت ملی جب پاکستان نے انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ میں آئی ایم ایف کی منشا اور اس کے معیار پر پورے اترنے والی ترمیم پیش کر دی۔ آئی ایم ایف کی تسلی ہو گئی اور پاکستان کو فنڈز مل گئے۔
اس طرح معمولی فیس پر کالے دھن سفید کیا جا رہا تھا۔ بھتہ، کک بیکس، رشوت اور منشیات کا سرمایہ بھی اس میں شامل تھا۔ بڑے بزنس مین ”اوور انواسنگ “ کر کے ایل سی کے ذریعے اضافی فنڈز آف شور اکاﺅنٹس میں منتقل کروا دیتے۔
بڑے عالمی ٹھیکوں کی کک بیکس بھی آف شور کمپنیوں میں منتقل ہوئیں۔ ہوالہ، ہنڈی، بیرر انویسٹمنٹ سکیمیں، سامان تعیش اوبر اینڈ انڈر انوائسنگ، بوگس درآمدات اور برآمدات، پرائز بانڈز، سرمائے کی منتقلی اور زرعی مصنوعات سے آمدنی اس کے خاص ذرائع تھے۔
یہ اربوں ڈالر چند محدود سمگلروں، ٹیکس چوروں، منشیات کا دھندہ کرنے والے یا کسی نہ کسی طریقے سے حکومت اور اپنے عوام کو اس جائز سرمائے سے محروم کرنے والوں کو ہی منتقل ہوتا ہے۔ یہ تعداد ہمیشہ محدود رہتی ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق اس کی چار ہزار برانچیں ملک کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی تھیں جبکہ ہزاروں افراد اس کے منی لانڈرنگ نیٹ ورک سے وابستہ تھے۔
خانی اینڈ کالیا کے دفتر میں کم و بیش تین درجن مہنگے سرور کام کر رہے تھے۔ سرور اور برانچ کی نیٹ ورکنگ اس کی خود تیار کردہ تھی۔ سافٹ وئیر اس قدر جدید تھا کہ کئی دوسرے منی چینجرز نے بھی اسی سے سافٹ ویئر حاصل کیا۔
سٹیٹ بینک کو اس وقت فکر لاحق ہوئی جب ہوالہ اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی شرح تبادلہ کا فرق نمایاں ہونے لگا۔ اس کے کائبور ریٹ اور مارکیٹ ریٹ میں فرق سے سٹیٹ بینک چوکنا ہو گیا۔ 2007ء میں یہ فرق مزید بڑھ گیا۔ ڈالر کی شرح تبادلہ 70 روپے تھی مگر اوپن مارکیٹ میں یہ 80 روپے کا اور ہوالہ منڈیوں میں 90 روپے تک بک رہا تھا جس سے پتہ چلا کہ زیر زمین کوئی ہوالہ منڈی متحرک ہے اور زیر زمیں ڈالر کی خریدو فروخت جا رہی ہے۔
اس منڈی میں خریدو فروخت اور بیرون ملک منتقلی کی وجہ سے ہوالہ منڈیوں میں ڈالر کے نرخ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ملائیشیا سے آنے والے ساڑھے چھ کروڑ ڈالر کے ترسیلات کو مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ کے تحت منجمد کر کے انکوائری کی گئی تھی۔
خانانی اینڈ کالیا درحقیقت ڈالر کو پاکستان لانے کی بجائے بیرون ملک سے ہی دوسرے ممالک میں منتقل کر دیتا تھا۔ پاکستان میں نہ آنے سے ڈالر کے نرخ خفیہ ہوالہ منڈی میں بڑھنے لگے جو اس وقت تک سٹیٹ بینک اور ایف آئی اے کی نظروں سے اوجھل تھی۔
ہم نے اسی دور میں بے نامی اکاﺅنٹس کا چرچا بھی سنا۔ ان اکاﺅنٹس میں فنڈز کی منتقلی کرنے والے کو نام کی بجائے کوئی کوڈ دے دیا جاتا ہے۔ اس کوڈ کی مدد سے دنیا کے کسی بھی حصے میں فنڈز وصول کیے جا سکتے ہیں۔
ان بے نامی اکاﺅنٹس کے ذریعے پاکستان سے اربوں ڈالر سمگل ہوئے تھے۔ اسی لئے بہت سوں کی منی ٹریل آج بھی غائب ہے۔ آئی ایم ایف نے بے نامی اکاﺅنٹس پر پابندی لگانے کے لیے معاہدے کیے۔ چنانچہ اب یہ غیر قانونی ہیں، کوئی پاکستانی بے نامی اکاﺅنٹ نہیں کھول سکتا۔
بے نامی اکاﺅنٹس کی جگہ اب ”نامعلوم اکاﺅنٹس “نے لے لی ہے۔ یعنی اکاﺅنٹس کے نام تو ہیں مگر لوگ لاعلم ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان اکاﺅنٹس میں پیسہ کہاں سے آیا۔ یہ بے نامی اکاﺅنٹس کی نئی شکل ہے۔
قلفی بیچنے والے، گھریلو خاتون اور طالب علم سمیت کئی افراد کے ”نامعلوم اکاﺅنٹس“ سے کروڑوں یا اربوں روپے مل رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ”مردے“ نے بھی ٹرانزکشن کر دی ہے۔ اقبال نامی ایک شخص کی چند سال قبل موت ہو گئی تھی مگر اس نے بھی اپنے اکاﺅنٹ سے کروڑوں روپے منتقل کر دئیے ہیں۔
اس وقت ہم میں سے کوئی بھی اس سوال کی اہمیت سے واقف نہ تھا، خیال تھا کہ وہ خود کو قانون کے شکنجے سے بچانے کے لئے ایسا کہہ رہا ہے۔ مگر اس کا جواب چند برس بعد وقت نے دے دیا ہے۔ آج ملک کی کئی اہم سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا کر رہی ہیں اور تلخ حقیقتیں عیاں ہوتی جا رہی ہیں۔ اسی لئے 2008ء جیسا دباﺅ ہم 10 سال بعد آج پھر محسوس کر رہے ہیں، آج پھر پہلے کی طرح سٹاک مارکیٹیں بحران میں مبتلا ہیں۔
2018ء کے وسط میں منی لانڈرنگ کا ایک اور بڑا کیس منظر عام پر آیا۔ 25 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پانے والا طارق سلطان اے ون انٹرنیشنل کمپنی کا مالک نکلا۔ اس کے اکاﺅنٹ میں 8 ارب روپے پائے گئے۔ قلفی والے کی طرح اس نے کہا کہ ”میں نے تو ایک لاکھ روپے دیکھے بھی نہیں، 8 ارب روپے کہاں سے لاتا“۔ اس منی لانڈرنگ میں سندھ حکومت کے ٹھیکیدار، شوگر ملوں مالکان اور ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والا ایک ذاتی پروٹوکول افسر بھی ملوث تھا۔
ایک سیاسی گھرانے کا ملازم کراچی میں 8 ایکڑ رقبے کا مالک نکلا جبکہ یہ زمین بیچنے والا اسی جماعت کا ملیر کا کا رہنما تھا۔ اسی دوران ایک کنسٹرکشن کمپنی کے مالک کے خلاف بھی تفتیش کا آغاز ہوا۔ ان کیخلاف 2 جون 2014ء کو بن قاسم ٹاﺅن میں 58 ایکڑ اراضی کی خریداری کے بعد کارروائی شروع کی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ اس زمین کا اصل مالک پاکستان سٹیل مل کے رقبے کا بھی دعویدار ہے اور اس نے زمین کی وصولی کے لیے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس منی لانڈرنگ میں 7 افراد کے نام پر کھولے گئے 29 اکاﺅنٹس استعمال ہوئے تھے۔ ان میں سے 16 اکاﺅنٹس ایک سابق بینک، 8 سندھ میں ایک سرکاری بینک اور 5 اکاﺅنٹس نجکاری میں دئیے گئے ایک بینک میں کھولے گئے۔
ان اکاﺅنٹس کو عارف خان اور اسلم مسعود بھی آپریٹ کر رہے تھے۔ اسلم، حسین لوائی کا قریبی ساتھی بتایا گیا تھا۔ ایک اور کیس میں طارق نامی شخص کے اکاﺅنٹ سے بینک کے سربراہ کے اکاﺅنٹ میں 3 ارب 40 کروڑ روپے منتقل ہوئے اور 29 کروڑ 37 لاکھ روپے طارق کے آجر کے اکاﺅنٹ میں گئے۔
اسی اکاﺅنٹ سے 49 کروڑ روپے نکلوائے بھی گئے۔ ایک ٹریول ایجنٹ کو بھی ڈھائی کروڑ روپے ملے۔ اسی دور میں ارم عقیل کا نام بھی سامنے آیا، اس نے بھی اپنے ان اکاﺅنٹس سے لاعلمی ظاہر کی۔
ارم عقیل کے اکاﺅنٹ سے ایک ارب روپیہ منتقل ہوا۔ 4 اکاﺅنٹس میں سے باقی 3 اکاﺅنٹس کیمیکل انڈسٹری اور تعمیرات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اقبال آرائیں، عدنان جاوید اور محمد عمیر کے نام پر تھے۔
لاکھوں ڈالر احسان اللہ کے اکاﺅنٹس سے عمیر کے اکاﺅنٹ میں منتقل ہوئے۔شناختی کارڈ نمبر اور تصاویر ہونے کے باوجود ایف آئی اے باقی تینوں کا سراغ پانے میں ناکام رہا۔ 6 دیگر اکاﺅنٹس رائل انٹر پرائزز، ایلفا زول پرائیویٹ، لاجسٹک ٹریڈنگ ، ایگرو فارمز ٹھٹھہ اور پارک تھینن پرائیویٹ کے نام پر تھے۔
ان کیسوں میں سرمایہ ایک اکاﺅنٹس سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے اور پھر بیرون ملک منتقل ہو گیا۔ اس سرمائے کی منتقلی میں سٹیٹ پاکستانی بینک کی اہم (سابق) شخصیت کا نام بھی گردش میں رہا۔
سٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے” مشکوک ٹرانزٹ رپورٹ“ جاری کرتے ہوئے لگ بھگ 10 اکاﺅنٹس کی چھان بین کی۔ 4 اکاﺅنٹس ایسے بینک میں کھولے گئے تھے جو کافی پہلے بند ہو چکا ہے۔
نومبر 2015ء میں ایف آئی اے نے ’اوپر سے ملنے والے حکم پر یہ انکوائری بند کر دی۔ اس کے بعد ماڈل گرل ایان علی کا نام بھی منی لانڈرنگ کی دنیا میں زیر گردش رہا۔ 10 ہزار ڈالر کی حد کی جگہ ان کے قبضے سے 5 لاکھ ڈالر نکلے تھے۔ قانون اس معاملے میں بھی بے بسی سے کروٹیں بدل رہا ہے۔ کہتے ہیں قانون اپنا راستہ خود بناتا ہے مگر یہاں اسے راستہ ہی نہیں مل رہا، اب دیکھتے ہیں کہ یہ برائی کب سامنے آئی۔
انسداد منی لانڈرنگ کا قانون”اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ “ پانچ سال زیر بحث رہنے کے بعد 2010ء میں منظور ہوا۔ لمبے عرصے تک ایف بی آر نے چپ سادھے رکھی جیسے یہ قانون موجود ہی نہ ہو اس سلسلے کی پہلی گرفتاری مئی 2018ء میں عمل میں آئی، تقریباً 8 سال تک منی لانڈرنگ ایکٹ فائلوں میں پڑا رہا۔
ایف بی آر کے حیدر آباد میں انٹیلجنٹ ونگ نے ایک مقامی بزنس مین کو لاکھوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا۔ 2016ء میں حکومت نے ایف بی آر کو بھی اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء کے تحت تفتیش کے اختیارات دے دئیے۔
ایف بی آر کے خفیہ ونگ نے ٹیکس چوروں اور بیرون ملک جائیدادوں کے مالک 260 بڑی مچھلیوں کا ذکر کیا۔ 57 کراچی اور 20 لاہور میں 58 اسلام آباد میں اور باقی ملک کے دیگر حصوں میں مقیم تھے۔
اس قانون کے تحت ایف بی آر نے کراچی کے ایک صنعت کار کیخلاف مقدمہ درج کر کے ساڑھے چھ ارب روپے وصول کیے تھے۔ جس کے بعد الزامات واپس لے لیے گئے۔ نیب کی طرح ایف بی آر بھی سرمائے کی وصولی کے بعد مقدمہ خارج کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
پاکستان میں منی لانڈرنگ روکنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا لیکن یہ بات بھی پیش نظر رکھی جائے کہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے ہمارے کئی ادارے متاثر ہو سکتے ہیں۔
یہ لوگ انہیں جام کرنے کی کوشش کریں گے جیسا کہ سٹاک مارکیٹ، چنانچہ بہت محتاط رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بہر صورت اس معاملے کو آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر ہی ہم اپنے ملک کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔