لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) مسلم لیگ ن کی قیادت نواز شریف، شہباز شریف کے خلاف مقدمات کے بعد اب خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق کی گرفتاری کے عمل نے مسلم لیگ ن کو ایک نئی کیفیت سے دو چار کر دیا ہے۔ ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگ زیب کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں پر تحقیقات کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف کو ایف آئی اے نے قطر جانے سے روک دیا اور ان کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا۔
کرپشن اور لوٹ مار کی بنیاد پر ن لیگ کی قیادت کے خلاف احتساب کا یہ عمل کس حد تک مؤثر اور نتیجہ خیز ہوگا یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ احتساب کے اس عمل کے اثرات سیاسی محاذ کے ساتھ خود مسلم لیگ ن پر اثر انداز ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کیا اس احتسابی عمل میں دباؤ برداشت کر پائے گی ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سیاسی اور عوامی محاذ پر زیر غور ہیں۔ اس حوالے سے تو دو آرا نہیں کہ ملک میں کرپشن اور لوٹ مار ہوتی رہی اور کوئی اس پر ہاتھ ڈالنے والا نہیں تھا۔ کرپٹ عناصر کے گرد قانون کا شکنجہ کسنا تو دور کی بات بلکہ بڑے بڑے کرپٹ اہم مناصب پر دندناتے نظر آتے رہے اور احتسابی ادارے نیب کے ذریعے ان پر مقدمات قائم ہونے کی بجائے کیس بند ہوتے رہے۔ پلی بار گیننگ کے تحت کچھ فیصد لیکر بڑی لوٹ مار سے صرفِ نظر کیا جاتا رہا۔ لہٰذا موجودہ دور میں احتسابی عمل کا دائرہ وسیع ہوتا نظر آ رہا ہے اور خصوصاً اس میں ہدف سابق حکمران جماعتیں مسلم لیگ ن اور کسی حد تک پیپلز پارٹی ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ آنے والے چند روز میں کوئی حکومتی کارندہ بھی پکڑا جائے جہاں تک مسلم لیگ ن کی سیاست پر مقدمات کے اثرات کا تعلق ہے تو مسلم لیگ ن کی قیادت یہ باور کرانے میں کوشاں ہے کہ مقدمات کا یہ سلسلہ سرا سر انتقام ہے اور ان کے خلاف الزامات میں شواہد نہیں اور یہ تاثر اس لئے پختہ ہو رہا ہے کہ اب تک پکڑے جانے والے بعض بیورو کریٹس کے خلاف ریفرنس کی تیاری میں تاخیر اور خصوصاً اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کے خلاف آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں تحقیقاتی عمل کے حوالے سے شواہد نہ ملنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ن لیگ پر وقت اچھا نہیں اور انہیں کچھ اور کئے کی سزا مل رہی ہے۔ احتساب کے مقدمات کے باوجود ن لیگ کی قیادت سیاسی محاذ خصوصاً پارلیمنٹ کے اندر جرأت مندانہ طرز عمل اختیار کرتی نظر آ رہی ہے اور خود نیب کو اس سے دفاعی محاذ پر آنا پڑا۔ لہٰذا یہ ذمہ داری نیب کی ہے کہ وہ اب کرپشن کے ان مقدمات کی تحقیقات کے بعد ریفرنس عدالتوں میں بھجوائے اور عدالتوں کے ذریعے یہ ثابت کرے کہ کون کتنا کرپٹ ہے اور کس نے کتنی قومی دولت لوٹی ہے اور اس حوالے سے ان کی کارکردگی اور سپیڈ ہی انہیں اپنے دعوؤں میں سرخرو کر سکے گی۔
کرپشن ملک کا اہم مسئلہ ہے ۔ قوم اس مسئلہ کا حل چاہتی ہے ۔ حکومتیں اور جماعتیں اس حوالے سے نعرے لگاتی ہیں، بیانات دیتی ہیں۔ لیکن عملاً نہ کچھ کرتی ہیں نہ کرنا چاہتی ہیں۔ لہٰذا یہ کام خود نیب کو کرنا ہے اور چیئرمین نیب نے چیلنج قبول کیا ہے تو سرخرو بھی انہیں ہونا ہے۔ اگر ان کے اقدامات محض اعلانات تک محدود رہے اور عملاً کرپشن ثابت نہ ہوئی تو پھر ن لیگ ہو یا کوئی جماعت وہ عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگی کہ انہیں محض انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور یہ عمل اسے سیاسی میدان سے باہر رکھنے کا ہتھکنڈا تھا۔