لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان نے نئے سال کی قرارداد کے طور پر سماج کو لاحق چار بڑی بیماریوں غربت، جہالت، ناانصافی اور کرپشن کے خلاف جہاد کا عزم ظاہر کیا ہے اور امید کی کہ 2019ء وطن عزیز کیلئے سنہرے دور کا نکتئہ آغاز ثابت ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کے خیالات، جذبات اور احساسات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور جب وہ ملک میں سیاسی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی سلگتے مسائل ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ مذکورہ مسائل عمران خان کی ہر تقریر کا حصہ ہوتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے باوجود ان کے حل کے حوالے سے کوئی بڑے اور موثر اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ ان کے عرصہ اقتدار کی مدت ابھی چند ماہ ہے جس سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ انہوں نے کس محاذ پر کیا اور کتنا ڈلیور کیا، تاہم وہ جن محاذوں پر نتائج کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں، اس کیلئے ان کے پاس ایسی ٹیم اور انتظامی مشینری موجود ہے جو ان کے خواب کو حقیقت کا رنگ دے سکیں؟۔
دوسری طرف زمینی حقائق اور اب تک کی کارکردگی کے جائزے سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس اعلانات اور بیانات تو ہیں مگر مسائل کے حل میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی اور اب تک کی صورتحال میں زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے قائد کے طور پر ہی بولتے، للکارتے اور دھاڑتے نظر آئے ہیں ان کی جانب سے اختیار کیا جانے والا تنقید کا آغاز ہماری سیاسی، اخلاقی اور سنہری روایات سے مطابقت نہیں رکھتا اور یہی وجہ ہے کہ اس کے بہت سے اثرات ان کی حکومت کے ذمہ داران اور وزرا پر ظاہر ہوتے ہیں اور خود ان کا اور ان کے وزرا کا مخالفین پر تنقید کا انداز بہت نقصان دہ ہے جس سے سیاسی و سماجی سطح پر درجہ حرارت بڑھا ہے کم نہیں ہوا۔ حکومت پر احتساب کا غبار سوار ہے مگر دیگر ایشوز سے اتنی زیادہ غرض نہیں خصوصاً وہ ایشوز جن کا خود وزیراعظم عمران خان اظہار کرتے رہے ہیں۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ عوام کو سیاسی انصاف ملتا ہے نہ عدالتی اور نہ ہی انتظامی، غربت ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی، ماضی کی حکومتوں کے ادوار میں بھی غربت کم ہونے کے بجائے بڑھی۔ وزیراعظم عمران خان کوغربت، جہالت، ناانصافی اور کرپشن کے خاتمہ کی طرف بڑھنا ہے تو انہیں چاہئے کہ اپنی حکومت کے اب تک کے پالیسی اقدامات اور اصلاحات کا جائزہ لیں۔ ماہرین کی آرا سے فائدہ اٹھا کر قابل اعتماد اور باصلاحیت افراد پر مشتمل ٹیم تشکیل دیں۔ انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ وہ دوسروں پر سخت جارحانہ تنقید کرتے رہے ہیں اور اب انہیں اپنے دامن کو ایسے تمام داغوں سے بچانا ہوگا اور خصوصاً عوامی ایشوز کے حوالے سے۔
دوسری طرف ملک کو آگے لے جانے کیلئے ادارہ جاتی بحران سے نکلنے کی ضرورت ہر سطح پر محسوس کی جا رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اداروں پر اعتبار و اعتماد کی فضا موجود نہیں۔ مداخلت، گروہ بندی لوگوں کو خریدنا، بیچنا، نان ایشوز کو ایشوز اور ایشوز کو نان ایشوز میں ڈھالنے کا وتیرہ عام ہے۔ اس صورتحال کے تدارک میں بنیادی کردار حکومت کو ادا کرنا ہے۔ جہاں تک کرپشن کا سوال ہے تو یہ درست ہے کہ عمران خان نے اسے ایشو بنایا اور اب وزیراعظم کے طور پر انہیں موثر احتساب کیلئے پیش رفت کرنی چاہئے نہ کہ وہ مخالفین کو جیلوں میں بند کرنے کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے زور لگائیں۔ احتساب انصاف کی بنیاد پر ہونا چاہئے نہ کہ انتقام پر ،یہی وجہ ہے کہ اب تک کے احتسابی عمل کی کوئی ساکھ نہیں بن پا رہی۔ حقیقی معاشی بحالی اور ترقی کا عمل ہی ملک کو آگے لے جائے گا اور حکومت کی کامیابی کے امکانات روشن ہوں گے۔ کرپشن کے شور سے زیادہ سنجیدگی حقیقت پر دی جائے تو نتائج آسکتے ہیں، نیا پاکستان نعروں سے نہیں بلکہ صحیح حکمت عملی اور موثر اقدامات سے وجود میں آسکتا ہے، لیکن اگر حالات کا رخ یہی رہا اور جوابدہی کے احساس کے بجائے چڑھائی کی پالیسی جاری رہی تو لوگ پرانا پاکستان ہی ڈھونڈتے نظر آئیں گے۔