لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پاکستان پر امید ہے کہ ترکی سے پاکستان کی تجارت کا حجم پانچ سو ملین ڈالرز تک وسیع ہو سکتا ہے جس کیلئے دو طرفہ مذاکرات اور ان کے نتیجہ میں اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، یہ بات خارجہ آفس کے ذمہ دار ذرائع نے بتائی جو وزیراعظم عمران خان کے دورہ ترکی کو موجودہ حالات میں اہم قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان امن عمل اور کشمیر کاز پر پاکستان اور ترکی کی قیادت کے درمیان اتفاق ان ایشوز پر پیش رفت کا باعث بن سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ اور مذاکراتی عمل کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کے خواہاں ہیں۔
اعلامیہ میں تمام عالمی فورمز پر دو طرفہ تعاون کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا کہ نیوکلیئرگروپ میں شمولیت کیلئے پاکستان ترکی کی حمایت کو سراہتا ہے جبکہ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام تمام فریقین کے درمیان مصالحت کے ذریعے ہی آ سکتا ہے۔ پاکستان اور ترکی کی جانب سے آنے والا مشترکہ اعلامیہ ظاہر کرتا ہے کہ علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان اور ترکی ایک ساتھ کھڑے اور جڑے ہوئے ہیں اور تعلقات کے اس عمل کے پیچھے ثقافت، مذہب اور دونوں طرف کے عوام کے درمیان بھائی چارے کا رشتہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ ترکی اور اس میں ان کی بھرپور پذیرائی کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی فتح اللہ گولن اور اس کی تحریک کے خلاف فیصلہ بھی ہے۔ جس کے حوالے سے ترکی کی حکومت کے شدید تحفظات تھے اور ان کی روشنی میں پاکستان نے اس تحریک کو یہاں خلاف قانون قرار دیتے ہوئے ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی اور اس تنظیم کے بعض ذمہ داران کو پکڑ کر ترکی کی حکومت کے حوالے بھی کیا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور ترکی کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ میں دونوں ملکوں نے دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے اور فتح اللہ گولن کی دہشت گرد تنظیم کے خلاف بھی عزم کا اعادہ کیا۔
ویسے دیکھا جائے تو پاکستان اور ترکی کے درمیان تعلقات بڑے موثر، مضبوط اور خصوصاً عوامی سطح پر جذباتی ہیں اور ہر حکومت ترکی کے حوالے سے یکسو اور سنجیدہ رہی ہے مگر سابق نواز شریف حکومت اور ترکی کے ساتھ تجارتی تعلقات کے حوالے سے یہ تاثر عام تھا کہ دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ترکی کے صدر اور پاکستان کے شریف خاندان کے درمیان تعلقات کا یہ عمل ذاتی تعلقات میں تبدیل ہو چکا ہے اور خصوصاً طیب اردوان کی حکومت کے خلاف ہونے والی ناکام قومی بغاوت پر بھی مسلم لیگ ن نے طیب اردوان اور ان کی حکومت سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا اور انہیں جمہوریت کا علمبردار قرار دیا تھا اور شریف خاندان کے حوالے سے قائم ہونے والے مقدمات بارے میں ایسی چہ مگوئیاں سنائی دی تھیں کہ ترکی کی حکومت خصوصاً صدر طیب اردوان شریف خاندان کے ریلیف کیلئے کوئی کردار ادا کریں گے لیکن وزیراعظم عمران خان کے دورہ ترکی میں ان کی پذیرائی اور خصوصاً پاکستان کے حوالے سے ترک قیادت کے احساسات و جذبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلقات ملکوں کے ہوتے ہیں ان میں ذاتی تعلقات کی حیثیت نہیں ہوتی اور جب دوست ملک ترکی جیسا ہو تو ان کے جذبات و احساسات بھی پاکستان اور پاکستان کی حکومت کے حوالے سے ہوتے ہیں۔
خصوصاً ترک صدر طیب اردوان کی جانب سے عمران خان اور ان کی حکومت کی کامیابی کیلئے خواہشات کا اظہار یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے قریب پاکستان اہم ہے اور پاکستان میں جو بھی حکومت قائم ہو وہ اسے اہمیت اور حیثیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ ترکی کے اعلان اور اب ان کی ترکی میں ہونے والی پذیرائی سے ن لیگ کے اندر مایوسی کا عنصر پایا جاتا ہے اور پارٹی کے ایک ذمہ دار ذریعے کے مطابق ہم سمجھتے تھے کہ ترکی اتنی جلدی وزیراعظم عمران خان کو دورہ کیلئے مدعو نہیں کرے گا اور انہیں اتنی پذیرائی نہیں ملے گی۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے روایتی دوست ممالک میں ترکی کا شمار ان میں سے ہے جن کا تعلق پاکستان اور پاکستانی حکومتوں سے ہے اور وہ اپنے کسی تعلق کو ان پر ترجیح نہیں دیتے۔ پاک ترک تعلقات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان ہمیشہ سے ہی ترکی کیلئے اہمیت کا حامل رہا ہے باہمی تعلقات اور تجارت کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان اور ترکی کی لیڈر شپ میں مشاورتی عمل جاری رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغان تنازع ہو یا کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ دہشت گردی یا شدت پسندی کے ر جحان میں بھی پاکستان اور ترکی اس کے سدِباب کیلئے باہم عزم کے اظہار کے ساتھ اقدامات پر زور دیتے رہتے ہیں اور خصوصاً طیب اردوان کی قیادت آنے کے بعد پاکستان اور ترکی کے درمیان تعلقات کا سلسلہ باہم تجارت کے ساتھ ساتھ دفاعی حوالے سے اہم رہا اور ترکی اس حولے سے ہمیشہ پاکستان کی دفاعی اہمیت و حیثیت سے مستفید ہونے کا اظہار کرتا نظر آیا اور اس حوالے سے معاہدوں پر بات چیت کا عمل جاری ہے ۔