لاہور: (تجریہ: سلمان غنی) چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈر نیب کی کارروائی کا سامنا کر سکتا ہے تو وزیراعظم کیوں نہیں، وزیراعظم کو استحقاق نہیں کہ وہ نیب کی کارروائی کا سامنا نہ کریں، انہوں نے کہا کہ جرم ہوا ہے تو انکوائری ہو گی۔ این آر او کوئی دے کسی کو بھی دے مگر نیب فریق نہیں ہوگا۔ انتقام یا زیادتی کا نیب میں کوئی تصور نہیں۔
چیئرمین نیب کا یہ بیان ملک میں کرپشن کے خاتمہ میں ان کی سنجیدگی کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے، لگتا ہے کہ چیئرمین نیب اور ان کے ادارے نے ہونے والی تنقید پر نظر رکھی ہے اور اس تنقید کا ہی یہ ثمر ہے کہ چیئرمین نیب اپنے ادارے کے بلا امتیاز کردار کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں، ان کا یہ رد عمل غالباً وزیر اطلاعات فواد چودھری کے اس بیان کے پس منظر میں ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف ہیلی کاپٹر کیس چلانا زیادتی ہے، جس پر دنیا ہنس رہی ہے یہ کیس ختم ہونا چاہیے، یہ پاکستان کے نظام اور وزیراعظم کی توہین ہے۔
جہاں تک وزیراعظم کے حوالے سے ہیلی کاپٹر کیس میں تحفظات کا معاملہ ہے تو موثر احتساب کی داعی حکومت کی جانب سے یہ اعتراض بلا جواز ہے، اگر عمران خان نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے پختونخوا حکومت کا ہیلی کاپٹر غیر سرکاری دوروں کیلئے نہایت ارزاں نرخوں پر استعمال کیا تو تفتیش ہونی چاہیے۔ مبینہ طور پر 52 گھنٹے تک ہیلی کاپٹر کے اس استعمال میں ان کی جانب سے اوسطاً 28 ہزار فی گھنٹہ کی ادائیگی ہوئی۔ ایکسوریل ہیلی کاپٹر کا فی گھنٹہ خرچ پانچ سے چھ لاکھ ہوتا ہے اور خود اس کیس میں عمران خان نیب میں پیش بھی ہو چکے ہیں، لہٰذا اس کیس میں بھی نیب سے مکمل تعاون حکومت اور جماعت کی اخلاقی اور سیاسی ساکھ کی بہتری میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
لگتا یوں ہے کہ وزیر اطلاعات نے ہیلی کاپٹر کیس کا حوالہ دے کر خود وزیراعظم عمران خان پر یہ بوجھ لاد دیا ہے کہ وہ خود ہیلی کاپٹر کیس کے حوالے سے کوئی بڑا اعلان کریں کہ وہ تحقیقاتی عمل کو انجام تک پہنچانے کیلئے ہر ممکن تعاون کریں گے۔ یہ اب چیئر مین نیب کے بیان کے بعد متوقع بھی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر جماعت اقتدار میں آنے سے پہلے موثر اور کڑے احتساب کی داعی بنتی ہے مگر اقتدار میں آ کر انہیں اپنے وعدوں کا پاس نہیں رہتا۔ بد قسمتی سے ملک کی روایت یہ ہے کہ احتساب کا قانون مخالفین کو تنگ کرنے یا بلیک میل کرنے کیلئے استعمال ہوتا آیا ہے۔ احتساب کے حوالے سے یہ ہمارا انفرادی و اجتماعی کردار ہے جو کرپشن کے فروغ کا ذریعہ بنا ہے۔