ن لیگ مزاحمت سے مفاہمت کی جانب؟

Last Updated On 17 January,2019 09:55 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ملکی حالات اور نئے پیدا شدہ سیاسی رجحانات میں ‘‘شریف خاندان’’ کیلئے ریلیف کا عمل شروع ہوتا نظر آ رہا ہے، اس میں حکمت عملی شہباز شریف کی ہے کہ ہمیں محض مزاحمت اور محاذ آرائی بڑھانے کے بجائے قانونی عمل کی پیروی اور سیاسی عمل کے تسلسل کے ذریعے ہی اپنے لئے راستہ بنانا ہوگا یہی وجہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز اور ان کے حامیوں کی خاموشی کے بعد مسلم لیگ ن ایوانوں میں بھی لیڈ کرتی دکھائی دے رہی ہے اور سیاسی محاذ پر ان کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے ۔ یہ اس جماعت کی کامیاب حکمت عملی ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نیب کے احتسابی کٹہرے میں بھی موجود ہیں اور پارلیمنٹ کے سب سے بڑے احتسابی فورم کے چیئرمین بھی ہیں یہ وہی فورم ہے جہاں حکومت وقت اور بڑے تحقیقاتی ادارے ان کے سامنے پیش بھی ہو رہے ہیں اور جوابدہ بھی ہوتے ہیں۔

اس سلسلہ کا آغاز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہوا جسے خود قائد ایوان اور ان کی حکومت نے اپنی انا کا مسئلہ بناتے ہوئے اس عہدہ پر شہباز شریف کی نامزدگی کو نا ممکن قرار دیا تھا اور باقاعدہ اس کے خلاف میڈیا کے محاذ پر مہم چلائی تھی۔ وہ کون سے پر اسرار اشارے تھے جس پر حکومت نے راتوں رات یوٹرن لیا اور شہباز شریف کو بطور چیئر مین پی اے سی قبول کر لیا گیا اور بیچارے شیخ رشید کو بھی کانوں کان خبر نہ ہوئی اور وہ پھر اپنی اس شرمندگی کو مٹانے کیلئے بار بار سپریم کورٹ جانے کی دھمکیاں دیتے نظر آئے مگر بعد ازاں جب انہیں پتہ چلا کہ یہ فیصلہ ان راہداریوں میں ہوا ہے جس کی خاک خود شیخ رشید بھی چھانتے رہے ہیں تو پھر انہوں نے اس پی اے سی کی رکنیت کیلئے رجوع پر اکتفا کر لیا۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا ؟ کیسے ہوا؟ اور مسلم لیگ ن جیسی جماعت بالآخر اداروں سے مفاہمتی عمل پر کیوں کر مجبور ہوئی ؟ اور کیا یہ سب کچھ اس خاموش مفاہمتی عمل کا نتیجہ ہے جس کے ایک جانب مسلم لیگ ن کو ریلیف مل رہا ہے تو دوسری جانب ن لیگ کی صفوں میں پر اسرار خاموشی طاری ہے اور اپنے یوم تاسیس پر بھی خاموش رہنے والی جماعت اب پارلیمنٹ میں مرکزِ نگاہ بنی ہوئی ہے۔

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا چیمبر نوابزادہ نصر اﷲ خان کی نکلسن روڈ والی رہائش گاہ کی یاد دلا رہا ہے جہاں شیر اور بکری ایک ہی جمہوری تالاب سے پانی پیتے نظر آرہے تھے وہ عدالتیں جہاں سے فیصلوں کی ابتدا گاڈ فادر اور مافیاز جیسے ریمارکس سے شروع ہوئی تھی وہاں اب شفاف ٹرائل کا بنیادی حق محفوظ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ نیب کی اپیل یکے بعد دیگرے اعلیٰ عدالتی ایوانوں سے مسترد ہو رہی ہے ۔ یقینا یہ ایک بہتر قانونی حکمتِ عملی کا بھی نتیجہ ہوگا اور بہتر سیاسی حکمت عملی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر شہباز شریف فیملی کو ریلیف روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آ رہا ہے۔ شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈرز کے بعد ان کی چیئرمین پی اے سی اور پھر اسلام آباد میں منسٹرز انکلیو میں ان کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے کے عمل سے بہت کچھ واضح ہو چکا ہے اور اب ان کے صاحبزادے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ی بھی چمکا رہے ہیں، ایک وقت تھا وہ اپنی ضمانتیں کراتے پھر رہے تھے، اب وہ 10 دن کی خصوصی اجازت پر لندن کے سفر کی تیاری میں ہیں۔

ساری صورتحال بتا رہی ہے کہ شہباز شریف کو جس کام سے روکنے کے لیے نیب کی راہ دکھائی گئی تھی اب وہی کام شہباز شریف دھڑلے سے کر رہے ہیں مگر ایک خاص خاموشی کے ساتھ۔ شہباز شریف سے پہلے خطرہ کیا تھا ؟۔ یقینا وہ پنجاب میں ایم پی ایز کے اندر ایک بے چینی تھی جن کا تعلق حکمران جماعت سے تھا یا آزاد اراکین اسمبلی تھے۔ اس لمحے پر جب شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا تھا سیاسی محاذ آرائی اپنے عروج پر تھی اور عین ممکن تھا کہ پنجاب میں حکومت تحریک عدم اعتماد کی تاب نہ لا سکتی مگر اس وقت شہباز شریف کو منظر عام سے غائب کر دیا گیا تھا۔ ان کے اسمبلی میں آنے کے بعد حکومت پر کئی سمتوں سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ایک دباؤ اپوزیشن لیڈر کے چیمبر کے اندرونی مناظر ہیں اور دوسرا دباؤ ہمیں رائے عامہ کے فرنٹ پر نظر آ رہا ہے جہاں سب کا ہدف صرف نئی حکومت بن چکی ہے۔ یہ سب یکا یک اور اچانک کیوں ہو گیا ؟ ن لیگ جو پہلے اداروں کو ہدف بناتی تھی اور حکومت کو پراکسی حکومت قرار دیتی تھی اب وہ اصلی حریف کو بھول کر پراکسی حکومت کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔ میڈیا بھی ان کے ساتھ یک زبان ہو چکا ہے اور اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی بھی پہلے سے حکومت کے خلاف ہو چکی ہے اور اب ملک میں بظاہر حکومت کے خلاف اکٹھ نظر آ رہا ہے اور موجودہ سیٹ اپ ختم ہوتا ہے یا تحریک عدم اعتماد آئی اور کامیاب بھی ہو گئی تو سب سے بڑا ریلیف ن لیگ کو مل جائیگا۔جو کام اور جو ہدف یا ریلیف نواز شریف ‘‘مجھے کیوں نکالا’’ سے نہ لے سکے وہ کام اب جیل کی بند سلاخوں کے پیچھے بیٹھے وہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

شاید پاکستانی تاریخ میں اس وقت خاموش این آر او کا کوئی ثبوت تو نہ ملے گا مگر اثرات ہمیشہ نظر آتے رہیں گے۔ حکومتی و سیاسی ایوانوں میں شہباز شریف کے بڑھتے ہوئے سیاسی کردار پر چہ مگوئیوں کا عمل جاری ہے اور ان کے قریبی حلقے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ شہباز شریف ٹھیک ہی کہتے تھے کہ مجھے یقین ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا اور راستہ بنتا نظر آ رہا ہے مگر یہ پتہ لگانا مشکل ہوگا کہ راستہ بنا کیسے اور بنایا کیسے البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ شریف خاندان خصوصاً شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ سے مشکل وقت ٹل رہا ہے۔