لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سانحہ ساہیوال کے نتیجہ میں پولیس کے ہاتھوں حکومت کو ہونیوالی شرمندگی کا یہ نتیجہ ضرور نکلا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں جہاں سانحہ ساہیوال کے تحقیقاتی عمل پر غور و غوض ہوا، وہاں حکومت نے پولیس میں اصلاحات کا فیصلہ کیا اور پختونخوا کی طرز پر پنجاب پولیس کو استوار کرنے کیلئے باقاعدہ ایکٹ لانے کا اعلان کر ڈالا ۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہو گا کہ فیصلہ پر عملدرآمد کب اور کیسے ہوتا ہے۔
پولیس کو اپنے اصل مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کیلئے کیا اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں اور یہ کہ کیا پولیس کو واقعتاً سیاسی و حکومتی اثر و رسوخ سے آزاد ادارہ بنایا جا سکے گا، موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرنے اور تھانہ کلچر میں بنیادی تبدیلی لانے کا عزم ظاہر کیا تھا اور یہ توقعات قائم ہو رہی تھیں کہ نئی حکومت اس حوالے سے مؤثر اقدامات کرتے ہوئے ان کا قبلہ درست کرے گی لیکن حکومت کے برسر اقتدار آنے کے فوری بعد پاکپتن کے ڈی پی او کی تبدیلی کے عمل نے ان تمام امیدوں اور توقعات پر پانی پھیر کر رکھ دیا اور اس کے ساتھ ہی پنجاب کے آئی جی محمد طاہر کو تبدیل کرنے کا اقدام پنجاب میں پولیس اصلاحات کے ذمہ دار ناصر خان درّانی کیلئے بھی بڑا پیغام تھا اور انہوں نے ابتدا ہی میں ماحول کا اندازہ لگا کر اپنی جان چھڑا کر اپنی عزت بچائی۔ اور پھر پولیس اور انتظامیہ میں سفارشی کلچر کا جادو سر چڑھ کر بولتا نظر آیا اور پنجاب میں مختلف پاور سنٹر قائم ہونے کے باعث سب نے انتظامی مشینری میں ’’اپنا بندہ‘‘ والا کلچر عام کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا اور ہر انتظامی افسر اور پولیس افسر کی تقرری کے ساتھ کسی نہ کسی حکومتی ذمہ دار کا نام لیا جاتا رہا۔
دیکھا جائے تو پولیس اصلاحات کوئی بڑا کام نہیں اور نہ ہی حکومت کو اس حوالے سے کوئی تگ و دو کرنا پڑے گی۔ کیونکہ سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) ثاقب نثار کی جانب سے پولیس ریفارمز کیلئے لا اینڈ جسٹس کمیٹی کے ذمہ لگایا جانے والا کام پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے ۔ 14 جنوری کو پولیس میں اصلاحات کیلئے بننے والی کمیٹی نے پولیس کی ذمہ داریوں اور فرائض اور مؤثر تفتیشی سسٹم کے ساتھ اربن پولیسنگ کے حوالے سے قابل عمل سفارشات تیار کی ہیں۔ کمیٹی کے کنوینئر افضل شکری تھے اور اس میں پولیس کے اہم افسران سابق آئی جی اسد جہانگیر خان، شوکت جاوید، ڈاکٹر شعیب سڈل، طارق پرویز، طارق کھوسہ، منصور شاہ، فیاض طوراور پانچ موجودہ آئی جی حضرات کی سفارشات شامل ہیں۔ اب فیصلہ حکومت کو کرنا ہے، یقیناً ان سفارشات پر عمل درآمد کے نتیجہ میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کو اپنے مقاصد تک محدود کرتے ہوئے نتائج کی فراہمی کا پابند بنایا جا سکے گا اور اگر موجودہ حکومت پولیس کا قبلہ درست کرنے میں کامیاب رہی تو یقیناً یہ اس کا بڑا سیاسی کریڈٹ اور قومی خدمت ہوگی ۔ پولیس اصلاحات کے نتیجہ میں جہاں روایتی سیاستدانوں اور اراکین اسمبلی کے مفادات کو زد پہنچے گی وہاں پولیس کے اندر موجود بڑی تعداد میں کالی بھیڑوں کیلئے یہ عمل ہضم کرنا مشکل ہوگا، لیکن یہ اب قومی ضرورت ہے ۔ پولیس جیسے ذمہ دار ادارے کی بقا اور کردار کا سوال ہے اور صرف حکومت ہی نہیں اپوزیشن کو بھی پولیس میں اصلاحاتی عمل کی مکمل تائید و حمایت کرنی چاہئے۔ یہ حکومت کے مفاد میں بھی ہے اور پولیس کے اپنے کردار کی بحالی اور وقار کے حوالے سے بھی اہم ہے۔