لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مسلح افواج کے ترجمان کی جانب سے بھارت کی جانب سے کسی سرپرائز سے پہلے سرپرائز کی بات مسلح افواج کی پیشہ وارانہ اہلیت، ملکی بقاء و سلامتی اور تحفظ کیلئے اس کے عزم اور پاک سر زمین پر جان نچھاور کرنے کے جذبہ کی عکاس ہے اور یہ ظاہر کر رہی ہے کہ ایشوز، ڈائیلاگ پر حکومتی موقف کے ساتھ ہے۔ اگر بھارت اپنے مذموم ایجنڈا کے تحت پاکستان پر جارحیت مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پاکستانی فوج اس کا بھرپور اور مؤثر جواب دے گی اور فوج کا یہ بیان کہ ہمارا جواب مختلف ہوگا، اپنی جنگی حکمت عملی کے حوالے سے یکسوئی اور سنجیدگی کا مظہر ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس بریفنگ کا تفصیلی اور گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ مسلح افواج اہم علاقائی ایشوز پر اپنا دو ٹوک موقف رکھتی ہیں۔ خصوصاً بھارت میں جاری جنگی جنون اور بھارتی قیادت کی جانب سے دھمکیوں کے عمل پر کسی خوف کے اظہار کی بجائے اپنے عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ فوجی ترجمان کا یہ بیان کہ ہم حیران کر دیں گے۔ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری مسلح افواج کسی بھی جارحیت کی صورت میں اپنی جنگی حکمت عملی طے کر چکی ہیں اور اس کی حیثیت کسی طور بھی دفاعی نہیں ہوگی۔ جہاں تک دہشت گردی بارے فوجی ترجمان کا بیان اور پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو حقائق یہ ہیں کہ یہ جنگ پاکستان کی نہیں تھی لیکن اس جنگ سے نمٹنے کیلئے پاکستان نے بڑی تعداد میں مالی و جانی نقصان برداشت کیا اور پاکستان کو اس جنگ میں فرنٹ لائن کنٹری قرار دینے والے اپنا ملبہ پاکستان پر ڈال کر یہاں سے کھسک گئے اور پاکستان کی حکومتوں اور فوج نے مل کر دہشت گردی کی جڑیں کاٹنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج کا پاکستان ماضی کے پاکستان سے اس حوالے سے مختلف ہے کہ یہاں انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ رجحانات کا کافی حد تک قلع قمع ہو چکا ہے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگانے والی نریندر مودی سرکار کا اپنا ماضی اور کردار اس سے جڑا ملتا ہے اور فوجی ترجمان نے درست کہا کہ خود مشرقی پاکستان کو توڑنے میں مکتی باہنی کے کردار کو خود بھارتی وزیراعظم نے تسلیم کیا ہے اور خود گجرات کے قتل عام کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں متعدد بار ان کے مخالفین انہیں گجرات کے قصائی قرار دیتے ہیں جنہوں نے اپنی اناء کی تسکین کیلئے سینکڑوں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور ان کے اسی انسانیت سوز مکروہ کردار پر اہل مغرب خصوصاً امریکہ اور برطانیہ نے انہیں بلیک لسٹ کر رکھا تھا۔
یہ خود بھارت کی بدقسمتی رہی کہ ان کے ہاں ان کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر ایک ایسا شخص براجمان ہے جس کی انتہا پسندی ڈھکی چھپی نہیں اور مقبوضہ کشمیر میں ان کے انسانیت سوز کردار نے خود بھارت کی جگ ہنسائی کروا رکھی ہے یہ نکتہ درست ہے کہ بھارت نے پلوامہ واقعہ کو ہتھیار بنا کر اپنی قوم اور ملک کو صرف اس لئے جنگی بخار میں مبتلا کر دیا کہ اس نے پاکستان کی علاقائی اور عالمی حیثیت بڑھتی محسوس کی۔ ایک ہی وقت میں افغانستان کی صورتحال میں امن عمل کے حوالے سے پاکستان پر امریکہ کو انحصار کرنا پڑا۔ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان پر یہاں خوشی کی لہر پائی جا رہی تھی ،علاقائی صورتحال میں علاقائی ایشوز پر روس، چین، ترکی، پاکستان کی مشاورت کا حصہ تھے اور ترکی ، ملائیشیا کی مقبول لیڈر شپ کے دورہ پاکستان کے شیڈول کا اعلان سامنے آ گیا تھا۔ پلوامہ واقعہ پر بھارتی رد عمل اور فوری پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ عالمی عدالت میں اپنے دہشت گرد کلبھوشن یادیو کے کیس کی سماعت سے توجہ ہٹانے کی ایک منظم کوشش بھی تھی۔ پلوامہ واقعہ پر وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب حقیقت پسندانہ اور جرأت مندانہ تھا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر وزیراعظم دنیا کی توجہ عالمی عدالت کی طرف مبذول کراتے اور کہتے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے بھارتی کردار کا ایک نمونہ عالمی عدالت میں پیش ہے جس کے گھناؤنے کھیل کے سارے شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔
فوجی ترجمان نے پریس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کے بدلنے کی بات کر کے اس سوچ اور فکر کا ذکر کیا جس کا مقصد پاکستان کو آگے لے جانا ہے۔ پاکستان کے اندر سیاسی و اقتصادی استحکام قائم کرنا ہے۔ اس بنیاد پر پاکستان نے افغانستان میں امن کو اپنے استحکام سے منسلک کیا اور اپنا مثبت اور مؤثر کردار ادا کر کے امریکہ اور طالبان کو ایک میز پر لا بٹھایا جسے ماضی میں نا ممکن سمجھا جا رہا تھا اور اس عمل سے بھی بھارتی قیادت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے تھے اور انہیں پتہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو گیا تو دہشت گردی کا اس کا ایجنڈا ناکام ہو گا کیونکہ یہ بھارت ہی ہے جس نے افغانستان کی سر زمین کو ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کیلئے استعمال کیا۔ اس حوالے سے ‘‘را’’ اور این ڈی ایس کا گٹھ جوڑ ڈھکا چھپا نہیں۔ جہاں تک عالمی قوتوں کی جانب سے پاکستان اور بھارت کو ایشوز پر مل بیٹھنے کے مشورہ کا تعلق ہے تو پاکستان تو بار بار مذاکرات کی بات کرتا ہے مگر بھارت بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔ لہٰذا بھارت پر دباؤ بروئے کار لایا جائے جس پر مذاکرات سے زیادہ جنگی بخار سوار ہے۔