لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے واقعہ پر او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ پاکستان کی تحریک پر ترکی کی معاونت سے اجلاس 22 مارچ کو استنبول میں ہوگا۔ اجلاس میں کرائسٹ چرچ دہشت گردی کے واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا بھر میں پھیلے اسلام فوبیا پر بات ہوگی اور یورپ میں امیگرنٹ کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور ان پر ہونے والے مظالم پر بات کی جائے گی۔
دیکھنا ہوگا کہ او آئی سی کا اجلاس موجودہ صورتحال میں کس حد تک مؤثر اور نتیجہ خیز ہوگا۔ کیا اس کے ذریعے نیوزی لینڈ کے قتل عام کے زخم مندمل ہو سکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام فوبیا کی وجوہات کیا ہیں ؟ کون اسے ہوا دے رہا ہے ؟ یورپ اور امریکہ میں نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے ؟ سانحہ نیوزی لینڈ میں آخر مغرب مذمت میں بھی منافقت سے کام کیوں لے رہا ہے ؟ انتہا پسندی اور شدت پسندی کے بیج گزشتہ چالیس سال سے مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور افریقہ میں بہت محنت اور کوششوں سے بوئے گئے ۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کا اصل حریف سخت گیر کمیونزم کو پھیلانے والا سوویت یونین تھا۔ مغرب نے بڑی کامیاب منصوبہ بندی سے ان تین خطوں میں مسلم معاشروں کو جہاد کے زیور سے آراستہ کیا اور انہیں روسی جارحیت اور کمیونزم کے خلاف سینہ سپر ہونے کیلئے نا صرف اکسایا بلکہ آئیڈیل نظریاتی ماحول بھی پیدا کیا، کمیونزم سے مقابلے کیلئے ڈالر اور اسلحہ سے اسلامی مزاحمت کی آبیاری کی گئی۔ مغرب اس منصوبہ بندی میں بہت شاطر نکلا اور سوویت یونین کو توڑنے کے بعد ان نظریات اور تنظیموں سے ہاتھ اٹھا لیے جو اس نے کمیونزم کا راستہ روکنے کیلئے بنائی تھیں۔
یہ مرحلہ وہ تھا جب طاقتور عناصر کو انہی معاشروں میں بے سمت چھوڑ دیا گیا، القاعدہ ، طالبان یا دیگر شدت پسند تنظیموں نے اس زمانے میں اپنے آپ کو مزید منظم کیا اور مسلم معاشروں میں انتہا پسندی اور شدت پسند نظریات کا پرچار کیا اور پھر مسلم معاشروں کی محرومی کو جواز بنا کر اپنا بنیادی حریف مغرب اور اس کی پالیسیوں کو قرار دے ڈالا۔ مغرب نے خصوصاً امریکہ نے اس انتہا پسندی کو بارہا جواز فراہم کیے۔ عراق میں حملے کیلئے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی کہانی کا پہلے میڈیا کے ذریعے پراپیگنڈا کیا گیا اور پھر تمام لاؤ لشکر سمیت عراق میں صدام حسین کو سبق سکھانے کیلئے لشکر کشی کی گئی اور اس فارمولے کو عراق میں دو مرتبہ آزمایا گیا۔ مغرب نے فلسطینی ریاست خصوصاً حماس کے زیر انتظام علاقوں میں بھی دوہرا معیار اپنایا اور اسرائیل کو خطے میں ایک مستقل حقیقت کے طور پر مسلط کیے رکھا۔ مشرق وسطیٰ کے عربوں میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کی بنیاد مسئلہ فلسطین، مصر میں فوجی آمروں کی حمایت اور پھر عراق میں توسیع پسندانہ عزائم تھے۔
جنوبی ایشیا میں پہلے کشمیر وجہ بنا پھر 9/11 کے بعد کا منظر نامہ بنا۔ اس صورتحال کا رد عمل مغرب میں پہنچا تو پھر تہذیبوں کے درمیان ’’تصادم‘‘ کا عملی ماحول بن گیا۔ پہلے مغرب نے اس صورتحال کا فوجی رد عمل دیا (عراق اور افغانستان میں حملے ) پھر مغربی میڈیا کے زیر اثر ذہنوں نے ہر خرابی کو اسلام سے جوڑنا شروع کر دیا ۔ افسوس کہ اب معاملات مغرب میں حکومتوں کے بجائے جتھوں اور عام شہریوں نے سنبھال لئے ہیں اس لحاظ سے مغرب اس طرف جا رہا ہے جس طرح کا ماحول مغرب نے خود مسلم معاشروں میں ایک خاص حکمت عملی کے تحت پیدا کیا تھا، لگ یہی رہا ہے کہ مغرب مسلم انتہا پسندی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے ایک حقیقی لیڈر ہونے کا ثبوت دیا ہے اور مسلمانوں کی دلجوئی کرنے کی کوشش کی ہے مگر مغرب کی بقیہ لیڈر شپ اس امتحان اور آزمائش میں نا صرف ناکام رہی بلکہ اس کا دوہرا معیارایک بار پھر بے نقاب ہوا۔
مسلم معاشرے دیکھ رہے ہیں کہ چارلی ایبڈو کے معاملے پر جو عالمی لیڈر شپ نے فرانس میں کیا تھا کیا وہ مناظر ہمیں کرائسٹ چرچ میں سڑکوں پر نظر آئینگے ؟ اس سوال کا جواب مثبت ملنا مشکل ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اجلاس اس لحاظ سے بہت اہم ہوگا۔ اس کا اعلامیہ واضح کرے گا کہ اس بیداری کی حالت وہی ہے جو ماضی میں اس کا خاصہ رہا ہے یا پھر اس مرتبہ مسلم چیخ و پکار پر دنیا کان دھرے گی؟۔ اس واقعے کا سفارتی رد عمل ہی واضح کرے گا کہ مسلم امہ کے تنِ مردہ میں جان باقی ہے یا یہ وحدت اپنا اثر کھو چکی ہے اور ماضی کا قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ مغربی معاشروں میں مسلم پناہ گزینوں کے بارے میں نفرت انگیز رویہ ایک خاص طبقہ اپنائے ہوئے ہے اور صدر ٹرمپ کا لب و لہجہ اور پالیسیاں ببانگ دہل کہہ رہی ہیں کہ جنگ زدہ علاقوں کے لوگ انہی جنگی میدانوں میں خاک اور خون کے اندر بے شک نہلا دیئے جائیں مگر انہیں ترقی یافتہ معاشروں میں زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
پورے عالم عرب کو پہلے جنگ کا میدان بنایا گیا۔ شام جیسے ترقی یافتہ ملک میں بد امنی اور جمہوریت کے نام پر خانہ جنگی کو ہوا دی گئی۔ پھر مظلوم شامی عوام کو دربدر چھوڑ دیا گیا۔ یہی حالت لیبیا میں مسلم عوام کی کی گئی، یہ صورتحال یمن میں انسانی المیہ بن چکی ہے ۔ مغرب خصوصاً امریکہ عالم عرب میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کیلئے ہر وقت جنگ پر کمربستہ رہتا ہے ۔ مگر ان معاشروں کا انسانی بوجھ پناہ گزینوں کی شکل میں اٹھانے کو تیار نہیں۔ اس صورتحال کا رد عمل کیا ہوگا؟ یا کیا ہو رہا ہے ؟ یقیناً اور زیادہ انتہا پسندی اور امریکہ و مغرب مخالف جذبات۔جس سے تہذیبوں میں تصادم کی راہ مزید ہموار ہوگی اور اس سے دنیا میں مستقل اور پائیدار امن کا خواب ٹوٹ جائیگا۔