اسلام آباد: (دنیان یوز) سپریم کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد نیب کو نوٹس جاری کر دیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا کہ کیا ایسی مثال موجود ہے کہ ملزم عدالتی دائرہ اختیار اور قانونی حدود سے باہر چلا جائے۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے درخواست ضمانت پر دلائل میں کہا 15 جنوری کو جیل میں ان کے مؤکل کی طبیعت خراب ہوئی، پی آئی سی کے پروفیسرز، علامہ اقبال میڈیکل کالج کے ڈاکٹرز اور میڈیکل بورڈ نےالگ الگ رپورٹس میں بیماریوں کی تصدیق کی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا آپ نواز شریف کی 15 جنوری سے پہلے کی رپورٹس دکھا سکتے ہیں ، نئی اور پرانی رپورٹس کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہتے ہیں کیا نوازشریف کو بلڈ پریشر، گردے میں پتھری، ہیپاٹائٹس، شوگر اور دل کی بیماری پہلے بھی تھی اور کیا جیل میں ان کی حالت بگڑ تو نہیں رہی۔
خواجہ حارث نے کہا تمام میڈیکل رپورٹس میں نواز شریف کو ہسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے رپورٹس میں نواز شریف کے دل کی کوئی شریان بند ہونے کا ذکر نہیں، سینے میں درد کی شکایت دوا سے دور کی جا سکتی ہے، سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کا بیرون ملک علاج ہوتا رہا، اس صورتحال کے ساتھ انہوں نے الیکشن مہم چلائی اور مقدمات کا سامناکیا، دیکھنا چاہتے ہیں کیا اس وقت بھی ان کی طبی حالت ایسی تھی۔
خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کا بیرون ملک علاج ہوا اور ہمیں اسی پر اعتماد ہے، اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا نواز شریف کا نام ای سی ایل پر ہے تو ہماری اجازت کے باوجود وہ باہر نہیں جا سکتے۔ عدالت نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 26 مارچ تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت مسترد کی۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا نواز شریف طبی بنیادوں پر ضمانت کے مستحق نہیں، جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹ میں نواز شریف کی جان کو خطرات لاحق نہیں تھے، یہ کیس غیر معمولی حالات کا نہیں بنتا، نواز شریف کے معاملے میں مخصوص حالات ثابت نہیں ہوئے، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے باعث ضمانت نہیں دی جاسکتی، نواز شریف کوعلاج معالجے کی سہولتیں دستیاب ہیں۔
واضح رہے 8 ستمبر 2017 کو نواز شریف اور ان کے بچوں کیخلاف العزیزیہ، فلیگ شپ، ایون فیلڈ ریفرنسز دائر ہوئے، 19 اکتوبر 2017 کو العزیزیہ اور 20 اکتوبر کو فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد ہوئی۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7، محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا ہوئی۔ ستمبر 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں تینوں کی سزاؤں کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔ 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا ہوئی، عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کیا تھا۔