لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا، اس معاہدے کے کالے بادل پاکستان پر برس رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت اور کاروبار کو کل بہت بڑا جھٹکا لگا جب ڈالر اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح 148 روپے تک پہنچ گیا اور روپیہ 4 فیصد کمزور ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ پاکستان سٹاک ایکسچینج کا انڈیکس 320 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 33 ہزار 971 پوائنٹس پر بند ہوا ہے اور مارکیٹ تقریباً ایک فیصد تک گر گئی۔
میزبان دنیا کامران خان کے ساتھ کے مطابق اب اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوگا اس کا پاکستان کے عوام کو اندازہ نہیں ہے، مختصر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے بعد جو ہونا تھا وہ ہوگا، یہ تو کچھ نہیں ہے جو آج ہوا ہے کیونکہ بجٹ آئے گا، اس کے بعد بجلی، گیس اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور ہر چیز مہنگی ہو جائے گی، غریب کے لئے جینا بہت مشکل ہو جائے گا آج دلچسپ بات یہ ہے کہ اوپن مارکیٹ کے بجائے انٹر بینک یعنی سرکاری سطح پر روپیہ ڈالر کے سامنے ڈگمگاتا نظر آرہا تھا اور ڈالر 141 روپے 39 پیسے سے بڑھ کر اچانک 148 روپے تک پہنچ گیا تھا لیکن کاروبار کے اختتام پر ڈالر 5 روپے 60 پیسے اضافے کے ساتھ تقریباً 147 روپے پر بند ہوا، اوپن مارکیٹ میں 3 روپے کے اضافے کے ساتھ ڈالر کی قیمت 147 روپے پچاس پیسے رہی۔
اگلا ہفتہ کاروباری غیر یقینی صورتحال کے خاتمے میں فیصلہ کن ہوسکتا ہے، سٹیٹ بینک نے فیصلہ کیا ہے کہ 31 مئی کے بجائے آئندہ پیر کو ہی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر یگا۔ اس میں شرح سود کا اعلان ہوگا، وہ شرح سود جو آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد سامنے آئے گی اس سلسلے میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ شرح سود کتنی بڑھے گی، ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ شرح سود کے اعلان کے بعد لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ شرح سود کہاں رکے گی، روپے کی قدر کہاں رک رہی ہے گویا ایک سمت کا تعین ہو جائے گا یعنی اس اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن بھی نظرآ رہی ہے گزشتہ دو سال کے دوران ڈالر کی قیمت میں تقریباً 40 روپے کا اضافہ ہو گیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت کے 9 ماہ میں ڈالر کی قدر میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے اور 124 روپے میں ملنے والا ڈالر 147 کا ہوا ہے یعنی اس حکومت میں ڈالر 23 روپے مہنگا ہو گیا ہے۔
یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ آج ایک ہی روز میں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے بیٹھے بٹھائے پاکستان کے قرضوں میں 580 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے اور عوام کے لئے بری خبر یہ بھی ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی کا بدترین طوفان آئے گا۔ اس صورتحال کے حوالے سے ن لیگ کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے عدم استحکام آئے گا۔ لگ نہیں رہا کہ ایکسپورٹ بڑھے گی، لیکن کم از کم یہ ضرور ہوا ہے کہ جان کنی کا عالم ختم ہوا ہے، پہلے کہا گیا آئی ایم ایف نہیں جائیں گے پھر چلے گئے، اب معاہدہ ہو گیا ہے، حکومت کو اپنی خامیوں پر قابو پانا چاہیے، امید ہے حکومت کی نئی معاشی ٹیم خامیوں پر قابو پالے گی۔ انھوں نے بتایا کہ بجٹ آنے پر پتہ چلے گا کہ حکومت اخراجات کم کرنے کو تیار ہے یا نہیں، انھوں نے بتایا کہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مغربی ممالک دباؤ ڈال رہے ہیں، مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اچھی باتیں کی ہیں کہ وہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس نہیں لگائیں گے لیکن مجھے یقین نہیں آرہا۔ یہ اچھا خاصا ٹیکس لگائیں گے بجٹ آنے کے بعد پتہ چلے گا کہ ان کا رجحان کیا ہے، کیا حکومت اخراجات کم کرنے کو تیار ہے؟۔
ماہین رحمان سی ای او ایسٹ مینجمنٹ کا کہنا تھا کہ شرح سود ایک سے دو فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے اور کاروباری لوگوں کو اندازہ ہ ہو جائے گا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد اب شرح سود اور ایکسچینج ریٹ کیا ہوگا۔ اس سے مارکیٹ میں ایک حد تک غیر یقینی فضا ختم ہو جائے گی، یہ شرح سود ایک دو سال کے لئے تو رہے گی۔ لندن سے انٹرنیشنل بزنس و اکنامکس کے ماہر یوسف نذر کا کہنا ہے کہ کاروباری لوگوں کا حکومت اور اس کی پالیسیوں پر اعتماد بہت ضروری ہے حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کرنے میں تاخیر کر دی جس سے غیر یقینی ماحول برقرار رہا اس نے کاروباری لوگوں کے اعتماد کو بری طرح سے متاثر کیا اب عمران خان اور وزیر خزانہ ویژن دیں کہ آگے کیسے جانا ہے، ان کا اقتصادی پلان کیا ہے۔