لاہور: (روزنامہ دنیا) تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا ہے کہ اس وقت عمران خان اور ان کے معاونین نے ایک ایسی صورتحال اختیار کرلی ہے کہ باقی سب غیر متعلقہ ہوگئے ہیں۔
پروگرام تھنک ٹینک میں میزبان عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت ایشو تین ہیں، پہلا ایشو شمالی وزیرستان اور بلوچستان ہے، دوسرا ایشو سپریم کورٹ کے سامنے ہے اور تیسرا ایشو معاشی بدحالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن پارٹیوں کی حیثیت ثانوی ہے، نواز شریف نے بھی اس لئے مریم نواز سے کہہ دیا ہے کہ معاملات چلائیں، اس کی وجہ وکلا کی تحریک ہے، احتساب کا عمل اب پیچھے رہ گیا ہے، نئی صورتحال آگے آگئی ہے، اپوزیشن اس بارے میں جو چیزیں کہہ رہی ہے کہ رکن پارلیمنٹ کو اسمبلی میں بلایا جائے تو یہ اپوزیشن کا سٹینڈ مثبت ہے۔
تجزیہ کار، دنیا نیوز کے گروپ ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا ہے کہ حکومت پہلے دن سے ہی بڑے بحران سے دوچار ہے اور یہ بحران ختم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے، حکومت کی مختلف معاملات پر پوری طرح گرفت نہیں۔ ملک میں بے چینی کی صورتحال ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ متاثر ہوئے ہیں، لوگوں کو نئی حکومت سے بہت سی توقعات تھیں۔ مسائل کا سیاسی حل نکالنا چاہئے، وزیر اعظم نے بھی یہ بات کی تھی کہ قبائلی عوام کے مطالبات اصلی ہیں، ہر مسئلہ حل کرنا فوج کا کام نہیں ہوتا بلکہ حکومت کا کام ہوتا ہے کہ مسائل حل کرے۔ اب بجٹ پیش ہونے جا رہا ہے اور اس سے درجہ حرارت بڑھے گا، ملکی سلامتی کے ایشوز پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔
معروف تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا ہے کہ حکومت کا جہاں تک مسئلہ ہے تو اس نے اتنے ایشوز اکٹھے ہونے کیوں دیئے ؟ اب جب بجٹ آرہا ہو تو اتنے مسئلے نہیں اکٹھے کئے جاتے ، نیب کا معاملہ بھی حکومت کے کھاتے میں پڑ رہا ہے حالانکہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے۔ کوئی بھی تحریک عوامی سپورٹ کے بغیر نہیں چل سکتی، جہاں تک عوامی سپورٹ کا تعلق ہے تو اس میں بڑا مسئلہ اقتصادی ہے، اب بجٹ آنا ہے لیکن جو کام ہونا ہے وہ ہوچکا ہے، بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت غیر یقینی صورتحال موجود ہے، اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ وہ تحریک برپا کرسکتی ہے لیکن اب اپوزیشن کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، یہ اور بات ہے۔
اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیورو چیف خاور گھمن نے کہا ہے کہ ماحول گھمبیر ہونے کی کوئی بات نہیں ہے، عدالتیں، حکومت اچھے انداز میں چل رہی ہیں، وزیرستان کے معاملے پر پریشانی والی کوئی بات نہیں۔ اب اسلام آباد میں پنجاب بار کا جو اجلاس ہوا ہے تو اس میں کہا گیا ہے کہ ہم تو سپریم جوڈیشل کونسل کے ساتھ ہیں۔