لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ملکی و غیر ملکی محاذ پر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مسلسل بھارت سے مذاکرات کی تکرار اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے مسلسل انکار کا طرز عمل اب پاکستان کیلئے کمزوری اور جگ ہنسائی کا ذریعہ بن رہا ہے اور خود امریکہ اور عالمی برادری جو مستقل بنیادوں پر پاک بھارت تنازعات کیلئے دونوں ملکوں کو بیٹھنے اور بیٹھ کر تنازعات کے حل کا مشورہ دیتی نظر آتی ہے خود بھارت اپنی روایتی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث اس پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں۔
ایسا کیوں؟ بھارت خطہ میں امن و استحکام کیلئے پاکستان کے ساتھ بیٹھنے کو کیوں تیار نہیں ؟ پاکستان کی جانب سے مسلسل مذاکرات کی پیشکش کو اب بھیک کا انداز اپنانے کے مقاصد کیا ہیں ؟ اور عالمی برادری باہم ملکر بیٹھنے کا مشورہ اور بیان دینے سے بڑھ کر اس پر کردار کی ادائیگی کیلئے کیونکر تیار نہیں؟ اور اگر باہمی مذاکرات اور تعلقات ممکن نہیں بنتے تو تناؤ اور کشمکش کی صورتحال کا انجام کیا ہوگا ؟ اپنے اقتدار کے پہلے روز سے اب تک مسلسل مذاکرات کیلئے تیار اور اس کیلئے مکتوب بھجوانے، ٹیلی فون کالز کرنیوالے پاکستانی وزیراعظم عمران خان اس امر کا ادراک کیوں نہیں کر پا رہے کہ نریندر مودی اور ان کی جماعت کا نظریہ اور مائنڈ سیٹ کیا ہے جس کا اظہار دوسری مرتبہ منتخب ہونے پر خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی قومی سلامتی کے منصب پر دوسری بار بھی اجیت ڈوول کی نامزدگی کی صورت میں کر چکے ہیں۔
یہ وہی اجیت ڈوول ہیں جن کی پاکستان دشمنی ڈھکی چھپی نہیں اور اس کا واحد ایجنڈا پاکستان کو غیر مستحکم کرنا، اندرونی طور پر کمزور بنانا اور یہاں دہشت گردی اور شدت پسندی کو پروان چڑھانا ہے اور وہ خود اس ایجنڈا کا متعدد بار اظہار کر چکے ہیں اور خارجہ محاذ پر بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جے شنکر کر ذمہ داری دی ہے جن کے والد سبرا منیم مشرقی پاکستان میں براہ راست مداخلت کے زبردست حامی تھے اور بھارتی وزارت خارجہ میں ان کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔ لہٰذا ان کے قومی سلامتی اور وزارت خارجہ کے ذمہ داران وہ میزائل ہیں جو پاکستان کیخلاف ہی استعمال ہوں گے۔ لہٰذا ایسی لیڈر شپ سے یہ توقع کرنا کہ وہ بیانات اور مکتوبات کے ذریعے مذاکرات کی میز پر آ کر متنازعہ ایشوز کے حل کیلئے پیش رفت کریں گے، عقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
ہمارے خارجہ امور کے بعض ماہرین جب یہ کہتے ہیں کہ عمران خان اور نواز شریف میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نواز شریف کو شاید بھارت سے مذاکرات کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل نہیں تھی اور عمران خان کو حاصل ہے تو پھر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بار بار مذاکرات کی بھیک خود اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہی ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت پاک بھارت تعلقات کی تاریخ اور بڑے حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہے اور وہ شاید یہ بھی نہیں سمجھ پا رہے کہ بی جے پی نے مسلمان دشمنی اور پاکستان دشمنی کو فروخت کر کے انتخابی فتح حاصل کی ہے اور ان کی ماضی کی فتح اور آج کی فتح میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بی جے پی نے اس الیکشن میں اپنی پاکستان دشمنی کو بھارت کا سیاسی مذہب بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری جانب سے مسلسل گرمجوشی کے باوجود دوسری جانب کی سرد مہری ان کے موقف کو واضح کر رہی ہے لہٰذا وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مسلسل مذاکرات کی تکرار اور تعلقات پر اصرار اب قومی عزت و وقار اور پاکستانیت کیلئے پریشان کن ہے۔
جہاں تک امریکہ اور عالمی برادری کی جانب سے خطہ میں امن و استحکام کے حوالے سے پاک بھارت مذاکرات بارے اپنے اثر و رسوخ کے استعمال کی بات ہے تو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اب امریکہ اور بھارت کے تعلقات ماضی کے تعلقات سے مختلف نہیں، اب امریکہ نے اس خطہ میں بھارت کو اپنا سٹریٹجک پارٹنر بنایا ہے اور وہ کبھی بھی بھارت پر مذاکرات کیلئے دباؤ نہیں ڈالے گا کیونکہ خطہ میں اسکا اپنے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے واسطہ چین کے ساتھ ہے اور خطہ میں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اسکا سارا دارومدار اب بھارت پر ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دو طرفہ تعلقات کے باوجوداب چین اور پاکستان دونوں اس کے مفادات کے حصول میں بڑی رکاوٹ کے طور پر کھڑے ہیں اور اس نے ہمیں چینی کیمپ کا حصہ سمجھ لیا ہے۔ البتہ افغانستان میں اسے پاکستان کی ضرورت صرف اور صرف اپنی با عزت واپسی کیلئے ہے۔ ایسا ممکن ہوتا ہے تو پھر شاید اسے پاکستان کی مزید ضرورت بھی نہ رہے۔ لہٰذا امریکہ سے یہ توقع کرنا کہ وہ بھارت کو پاکستان سے مذاکرات کیلئے آمادہ کریگا اور اس کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریگا تو یہ سراسر حماقت ہے۔
ویسے بھی اگر سیاسی محاذ پر دیکھا جائے تو خود عمران خان اور ان کی جماعت کے ذمہ داران ماضی کی حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی ذات کو ٹارگٹ کرتے ہوئے مودی کا جو یار ہے غدار غدار ہے کے نعروں کو ہوا دیتے رہے۔ لیکن آج جب وہ خود اس منصب پر براجمان ہیں تو مودی سے مذاکرات کیلئے مرے جا رہے ہیں اور بھارت سے تعلقات کیلئے ٹھوکریں کھاتے نظر آ رہے ہیں جو ہر حوالے سے قومی عزت و وقار کے شایان شان نہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ پاکستان کے لوگ بھارت دشمنی کا شکار ہیں۔ پاکستان کے اندر کوئی انتخاب ایسا نہیں ہوا جس میں کسی بھی جماعت نے بھارت دشمنی کا نعرہ لگاتے ہوئے عوام سے مینڈیٹ لینے کی کوشش کی ہو۔ ملک میں تمام سیاسی جماعتیں بھارت سے با مقصد مذاکرات اور اس کے ذریعے تنازعات کے حل کی خواہاں رہی ہیں اور ہیں۔ مگر مذاکرات کی خواہش، کوشش اور مذاکرات کیلئے بھیک مانگنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
بد قسمتی یہ رہی ہے کہ حکمران بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے قومی عزت و وقار کو کیوں خاطر میں نہیں لاتے اور بھارت ہمارے حکمرانوں کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے انجوائے کرتا اور اپنے حق میں استعمال کرتا نظر آتاہے مگر مذاکرات پر کوئی لچک دینے کو تیار نہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کا ریکارڈ بھی گواہ ہے کہ ماضی میں امریکہ سمیت بعض قوتوں کے دباؤ پر اگر بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑا تو بھارت نے سنجیدگی دکھانے کے بجائے اسے بھی محض وقت گزاری کا ذریعہ بناتے ہوئے کشمیر سمیت اصل ایشوز سے احتراز برتا۔ لہٰذا پاکستان کی جانب سے امن پسندی اور اس کیلئے پاکستانی پیشکش کا موقف دنیا کو معلوم ہے لہٰذا چیف ایگزیکٹو امن پسندی اور اس کیلئے مذاکرات کی خواہش کو اپنی کمزوری نہ بنائیں اور جب تک بھارت کی جانب سے کوئی مثبت سگنل یا عالمی محاذ سے کوئی پیش رفت نہیں ہوتی، پاکستان کو امتحان میں نہ ڈالیں، آج کا پاکستان اتنا کمزور اور علاقائی محاذ پر غیر اہم نہیں ر ہا۔ علاقائی محاذ پر روس، چین اور دیگر ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا اپنی اس علاقائی اہمیت و حیثیت کا استعمال پاکستان کی مضبوطی ، ترقی اور عزت و وقار میں اضافہ کیلئے بروئے کار لانا چاہئے۔