قرضوں کی تحقیقات، معاملہ کیا ہے؟

Last Updated On 14 June,2019 09:18 am

لاہور: (امتیاز گل) قرضوں کی تفتیش کیلئے انکوائری کمیشن کا اعلان جس تناظر میں کیا گیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت وزیراعظم عمران خان مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہیں۔ ایک طرف ان کی پارٹی کے اندر بحران ہے۔ دوسری طرف معیشت کا بحران ہے، تیسری طرف ایک سرمست طاقتور افسرشاہی ہے اور چوتھی طرف ایسے وزیر اور مشیر ہیں جو آئے روز اپنے بیانات کے ذریعے وزیراعظم کیلئے مشکلات کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

وزیراعظم کے کچھ قریبی خیر خواہوں کے خیال میں آج عمران خان اسی وجہ سے کھوئے کھوئے سے معلوم ہوتے ہیں، انہی حالات میں باوثوق ذرائع کے مطابق انہوں نے ڈاکٹر شعیب سڈل کو اس انکوائری کمیشن کی سربراہی کرنے کی پیش کش کی ہے۔ تاہم ابھی تک اس انکوائری کمیشن کی شرائط کار طے نہیں ہوئیں۔ یہ مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے۔ کمیشن کا قیام اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وزیراعظم نیب سے مطمئن نہیں اور ان کے نزدیک مشکوک افراد کے خلاف اب دائرہ مزیدتنگ ہونے جا رہا ہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے لہجے میں حالیہ دنوں میں جو تیزی آئی ہے وہ اسکی غمازی کرتی ہے کہ انہیں نوازشریف، آصف علی زرداری اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے خلاف کارروائیاں تیز ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ اب مقتدر حلقوں سے وابستہ شخصیات کا لب و لہجہ بھی اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اپوزیشن شخصیات کیلئے کڑے دن آرہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ دباؤ بجٹ پاس کرانے کیلئے ڈالا جا رہا ہے، یا محض ایک حربہ ہے یا یہ ایک طویل المیعاد کرپشن کے خلاف مہم ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان کا شروع ہی سے فوکس کرپشن رہا ہے۔ 1995 میں جب ان کی جماعت بنی تھی تب بھی انہوں نے یہی کہا تھا کہ کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے۔ اب کمیشن کے دائرہ کار کے حوالے سے جو باتیں خاص طور پر زیرغو ر آئیں گی ان میں ایک یہ بھی ہے کہ سعودی عرب سے 4 سال قبل ڈیڑھ ارب ڈالر ملے تھے وہ کہاں گئے۔ اسی طرح فرینڈز آف پاکستان فورم بنا تھا جس نے آصف علی زرداری کے عہد میں ساڑھے 5 ارب ڈالر دینے کے وعدے کئے تھے اور غیر ملکی ڈونرز کو اس وقت شکوک و شبہات ہوئے جب دو وزرا کو یہ پیغام دیکر مختلف سفارتخانوں میں بھیجا گیا کہ جو وعدے ان کے ممالک نے کئے ہوئے ہیں، اس کی آدھی رقم وہ کیش کی صورت میں دے دیں۔ تب لوگوں نے ان سے سوال کیا کہ یہ وعدے ہیں اور یہ منصوبوں پر مبنی امداد کے وعدے ہیں۔ آپ منصوبے لائیں گے تو پیسے ملیں گے اس میں کیش کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

لہذا یہ 2011 سے سلسلہ چلا کہ جو غیر ملکی پیسے آتے ہیں وہ کہاں چلے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں ڈاکٹر شعیب سڈل اور دیگر کچھ لوگ یہ پوزیشن قبول کرنے سے گریزاں ہیں اور ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ جب تک اس سرمست بیوروکریسی کے پر نہیں کاٹے جاتے، اصلاح نہیں ہوتی، برطانوی راج کے زمانے کے حکومتی نظام میں ہمہ گیر اصلاحات نہیں ہوتیں اور ساتھ ساتھ مفاد پرست اور موقع پرست عناصر جو الیکشن سے قبل عمران خان کیساتھ شامل ہوگئے تھے، ان کی جگہ کوئی عالمی سطح پر اچھی شہرت رکھنے والے افراد کو ساتھ نہ ملایا جائے، ان کو کام کرنے کی مکمل آزادی نہ دی جائے اسوقت تک اس نوعیت کی مہمات زیادہ کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ عمران خان اس وقت کافی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، بہت سارے مسائل انہیں گھور رہے ہیں، اب انتظاراس بات کا ہے کہ آیا وہ لوگ جن پر اب تک انہوں نے تکیہ کیا ہے ان کاساتھ دینے پر آمادہ ہوتے ہیں یا نہیں کیونکہ اندرونی طور پر صورتحال کوئی بہت امیدافزا نہیں ہے۔

ایک مہینہ پہلے پاکستان نے 3 سال قبل جاری کئے گئے یورو بانڈز کے عوض سود اور بنیادی رقم کے طور پر 80 کروڑ ڈالر ادا کئے ہیں، یہاں پر بھی ایک بڑا سوال ہے کہ کل تین ارب ڈالر کے بانڈز جاری کئے گئے، اس پر تین سال کے بعد ہی 80 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کر دی گئی ہے اور زیادہ تر بانڈز کی مدت پوری ہونے میں ابھی ڈیڑھ دو سال کا وقت ہے۔ اس قسم کے سوال انکوائری کمیشن کے سامنے آئیں گے اور یہ بھی دیکھا جائے گا کہ ہر سال جو 18 سے 22 ارب ڈالر تک ترسیلات زر ہوتی رہی ہیں، آخر یہ کہاں گئیں، کس طرح خرچ ہوئیں کہ پاکستان کا خسارہ مسلسل بڑھتا چلا گیا۔