لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ ) پی ٹی آئی کے بڑے اس کا اظہار کریں نہ کریں، سامنے نظر آئے نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت شدید دباؤ کا شکار ہے، اس کی بڑی وجہ پاکستان کی دگر گوں معاشی صورتحال ہے اور عام خیال یہی ہے کہ مہنگائی مزید بڑھے گی، روزگار مزید کم ہوگا، لوگوں کو نوکریوں سے نکالا جائے گا، ایک کٹھن صورتحال ہے جو وزیر اعظم عمران خان کو سامنے نظر آرہی ہے، چاہے وفاق ہو یا پنجاب، پی ٹی آئی کی حکومت اتحادی جماعتوں کی ایک معمولی حمایت کے سہارے کھڑی ہے، یعنی کچے دھاگے سے بندھی ہے۔
قومی اسمبلی اور پنجاب میں اگر 11، 11اراکین ساتھ چھوڑ دیں تو عمران خان کی وزارت عظمیٰ ختم ہوسکتی ہے، عمران خان کی وفاق یعنی عمران خان کی حکومت صرف 11 نشستوں سے قائم ہے اور پنجاب میں 11 کھلاڑیوں کا بہت اہم کردار ہے۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پاس 172 کی سادہ اکثریت کے بجائے 182 نشستیں ہیں اس میں ایم کیو ایم کی 7 اور مسلم لیگ ق کی 5 نشستوں کا کردار ہے، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے کی 156 نشستیں ہیں، علی وزیر اور محسن داوڑ سمیت 4 آزاد ارکان کی حمایت کے بعد حکومت کو اپ سیٹ کرنے کے لئے صرف 12 سیٹیں چاہئیں۔
پنجاب میں بھی بالکل یہی کیفیت ہے تحریک انصاف کے پاس معمولی سی اکثریت ہے، پنجاب میں 185 ارکان کے مقابلے میں 196 ارکان کا اعتماد حاصل ہے یعنی پنجاب میں 11 ارکان پی ٹی آئی کو سرپرائز دے سکتے ہیں، 11 ارکان نکلے تو پنجاب کی حکومت بھی گئی۔ اگر مسلم لیگ ق کے 10 اور مولانا احمد لدھیانوی کی راہ حق پارٹی کا ایک رکن پنجاب اسمبلی سے الگ ہو جائے تو پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت ڈگمگا سکتی ہے۔
پاکستان میں حکومت سازی کے لئے 342 ارکان کی قومی اسمبلی میں 272 جنرل سیٹیں، 60 خواتین اور اقلیتوں کی 10 نشستیں ہیں۔ وفاق میں حکومت بنانے کے لئے 172 ارکان اسمبلی کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو 182 ارکان کا اعتماد حاصل ہے جس میں تحریک انصاف کی 156 نشستیں ہیں جبکہ 26 سیٹیں اس کی اتحادی جماعتوں کی ہیں، ان میں ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق، بلوچستان عوامی پارٹی، جی ڈی اے، بی این پی ( مینگل)، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی مسلم لیگ شامل ہیں، بالکل اسی طرح بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 10 نشستیں ساتھ چھوڑ دیں تو پی ٹی آئی کی حکومت لڑکھڑا سکتی ہے جن میں بلوچستان عوامی پارٹی کی 4 بی این پی (مینگل) کی 5 اور جمہوری وطن پارٹی کی ایک سیٹ شامل ہے۔
میزبان کے بقول پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو ایسی حکومتیں گرنا اور گرانا بائیں ہاتھ کا کام ہوا کرتا ہے اس وقت عمران خان پر ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کی طرف سے بڑا دباؤ ہے اور بلوچستان سے الگ آوازیں آرہی ہیں۔ اس حوالے سے پلڈاٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احمد بلال محبوب نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کے پاس اپنی اکثریت نہیں ہے، اس کی اکثریت کا انحصار دوسری سیاسی جماعتوں پر ہے، دوسری سیاسی جماعتیں اگر ساتھ چھوڑ دیں تو انھیں کوئی پنالٹی نہیں دینی ہوتی، اپنے اراکین اگر ساتھ چھوڑ دیں تو وہ نا اہل ہوسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت جو رائے عامہ کے نتائج آئے ہیں وہ بھی یہ بتا رہے ہیں کہ حالیہ دور میں کوئی خارجی عوامل ایسے نہیں جو اس معمولی اکثریت کو کسی طرح سے ڈگمگا سکیں۔
کم از کم مستقبل قریب میں ایسا نظر نہیں آتا لیکن آنے والے دور میں عوام کے اندر اگر حکومت کی ساکھ کمزور ہوئی اور اس کی سپورٹ کمزور ہوئی تو اس صورت میں وہ سیاسی جماعتیں جو اس حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں وہ بھی شاید نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ عمران خان پر بالکل دباؤ ہے، مزید وزارتیں بھی طلب کی جا رہی ہیں، نیب کے کیسز کے بارے میں بھی حکومت پر دباؤ ہے، حکومتی اتحادیوں کے خلاف نیب کے کچھ کیسز کی جو انکوائری ہوئی ہے وہ دبا دی جائے اور ختم کردی جائے یہ دباؤ بھی ہوسکتے ہیں، بہت سے دباؤ ہوں گے۔ آنے والے دنوں میں یہ دباؤ بڑھے گا، خاص طور پر بجٹ کے فوراً بعد اس دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
اس حوالے سے ممتاز تجزیہ کار زاہد حسین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان جب اقتدار میں آئے تھے تو ان کے پاس کوئی واضح ٹیم نہیں تھی اگر کوئی ٹیم ممبر ڈلیور نہیں کرتا تو اس کو تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، عمران کو شاید خود بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کو یہ تبدیلی لانی پڑے گی۔